میانمار: حکومتی حمایت یافتہ جماعتیں انتخابات میں کامیابی کے لئے سرگرم
6 نومبر 2010عالمی منظرنامے سے کٹی ہوئی ریاستوں میں شمار ہونے والے اس ملک میں گزشتہ 20 برسوں میں پہلی مرتبہ انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ میانمار کے انتخابات اس لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ کم از کم ان انتخابات کے بعد ملک پر فوج کی براہ راست حکومت کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔
سن 1990ء میں ہونے والے انتخابات میں فوجی جرنیلوں نے عوامی فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت پر اپنا قبضہ برقرار رکھا تھا۔
موجودہ انتخابات کے لئے نافذ کئے گئے سخت ترین ضابطوں کے باعث جمہوریت پسند قوتیں انتخابات کا حصہ بننے سے قاصر رہی ہیں جبکہ انتخابات میں اصل مقابلہ فوج کی حمایت یافتہ دو جماعتوں کے درمیان ہو رہا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی واضح اختلاف یا فرق بھی نہیں ہے۔
میانمار کے موجودہ انتخابات میں شامل اہم ترین جماعت یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی USDP ہے۔ اس جماعت میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی جرنیل شامل ہیں۔ اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے 28 ملین اہل ووٹروں میں سے 18 ملین ووٹر اس کے ممبر ہیں۔ اس جماعت نے بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلائی ہے اور یہ جماعت ملک کی تمام 1158 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے۔
ان انتخابات میں شامل دوسری اہم جماعت نیشنل یونٹی پارٹی ہے، جو 980 نشستوں پر USDP کا مقابلہ کر رہی ہے تاہم اس جماعت کو بھی فوجی جرنیلوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
ان انتخابات کے لئے حکومت کی جانب سے یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ پارلیمان میں 25 فیصد نمائندگی فوج کے پاس ہی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں حکومت کے لئے ان دونوں جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت کو حکومت سازی کے لئے صرف 26 فیصد کامیابی کی ضرورت ہو گی۔
ان انتخابات میں مجموعی طور پر 25 دیگر جماعتیں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ یہ جماعتیں ملک کی قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ 14 علاقائی اسمبلیوں کے لئے بھی اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امجد علی