میانمار حکومت راکھین اسٹیٹ تک رسائی دے، امدادی ادارے
عاطف توقیر
28 ستمبر 2017
عالمی امدادی اداروں نے میانمار کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انہیں راکھین ریاست میں تشدد سے متاثرہ علاقوں تک مکمل رسائی دے۔ گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ سے اس ریاست میں میانمار کی فوج نے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
اشتہار
امدادی اداروں کے مطابق راکھین ریاست میں حالیہ پرتشدد واقعات کے تناظر میں چار لاکھ اڑسٹھ ہزار روہنگیا افراد ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں، تاہم اب بھی ہزاروں افراد ایسے ہیں، جو متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں خوراک، چھت اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
میانمار کی فوج کی جانب سے تازہ عسکری مہم 25 اگست کو روہنگیا مسلم عسکریت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے راکھین میں کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کو ’سلامتی کے خطرات‘ کا عذر پیش کر کے کام سے روک دیا تھا، جب کہ اقوام متحدہ کے اداروں کو بھی متاثرہ علاقوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
بدھ ستائیس ستمبر کے روز امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’میانمار میں بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کو راکھین ریاست میں پھنسے افراد تک رسائی کی اجازت نہ ملنا اور وہاں انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے انکار شدید تشویش کی بات ہے۔‘‘
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
میانمار کی روہنگیا اقلیت پر ینگون سکیورٹی فورسز کے مبینہ مظالم کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ اقلیت اس وقت دنیا کے کن ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے، اس حوالے سے یہ تصاویر دیکھیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
میانمار
اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ تھی۔ میانمار میں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
بنگلہ دیش
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Bronstein
پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے مقیم رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
سعودی عرب
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ ِ اقتدار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ حال ہی میں ریاض حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا مسلمانوں کو دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصویر: DW/L. Kafanov
ملائیشیا
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P. Hossain
بھارت
میانمار کی روہنگیا اقلیت کئی برسوں سے ہجرت کر کے بھارت کا رخ کرتی رہی ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں سولہ ہزار سے زائد روہنگیا رہ رہے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کم و بیش چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/C. Anand
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی روہنگیا مسلمان اچھی خاصی تعداد میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ روہنگیا افراد بھی میانمار سے ہجرت کر کے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Alam
7 تصاویر1 | 7
امدادی اداروں کیئر انٹرنیشنل، آکس فیم اور سیو دی چلڈرن کے مطابق تشدد کی اس تازہ لہر کے باعث داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد نامعلوم ہے، جب کہ سینکڑوں ایسے افراد ہیں جو خوراک اور پانی، چھت اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔
ان امدادی اداروں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم میانمار کی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں راکھین ریاست میں موجود تمام افراد تک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ہنگامی امداد کی ترسیل کی مکمل اجازت دی جائے۔‘‘
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب
03:12
ملکی حکومت نے میانمار کی ریڈکراس تنظیم کو راکھین ریاست میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی ہے اور اس کی مدد بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کر رہی ہے۔ تاہم دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں کو کہنا ہے کہ راکھین میں موجود متاثرہ افراد کی تعداد کے اعتبار سے وہاں امدادی اشیاء کی قلت کے قوی خدشات ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ میانمار کی حکومت اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے تناؤ کی کیفیت ہے اور حکومت کا الزام ہے کہ یہ امدادی ادارے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم یہ امدادی ادارے ان حکومتی الزامات کو قطعی مسترد کرتے ہیں۔