میانمار روہنگیا کو مظالم سے بچانے میں ناکام رہا، اقوام متحدہ
19 اکتوبر 2017نیو یارک سے جمعرات انیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس عالمی ادارے کے ان دونوں خصوصی مشیروں نے اپنے مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ان دونوں عہدیداروں اور کئی دیگر شخصیات نے میانمار کی حکومت کو کئی بار یہ تنبیہ کی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتی جا رہی تھی۔
روہنگیا مہاجر کی کہانی، چار دہائیوں بعد بھی پناہ گزین
روہنگیا مہاجرین: بنگلہ دیشی بھارتی سرحد کی نگرانی میں اضافہ
بنگلہ دیشی کیمپ میں چار روہنگیا ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلے گئے
اقوام متحدہ کے ان دو مشیروں میں سے ایک آڈاما ڈینگ ہیں، جو نسل کشی کی روک تھام کے لیے اس عالمی ادارے کے خصوصی مشیر ہیں جبکہ دوسرے ایوان سیمینووچ ہیں، جو تحفظ سے متعلق ذمے داریوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر ہیں۔
ان دونوں سرکردہ شخصیات نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ میانمار حکومت کو تنبیہ کر دی گئی تھی کہ اس پر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں روہنگیا مسلم آبادی کو مظالم سے بچانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت جو بڑی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ پوری نہیں کی جا رہی تھیں۔
اس بیان کے مطابق راکھین میں روہنگیا مسلم برادری پر مظالم اور خونریزی کی لہر کے باعث جو بحران پیدا ہوا، اس پر بین الاقوامی ردعمل بھی ایک اجتماعی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ آڈاما ڈینگ اور ایوان سیمینووچ نے کہا، ’’روہنگیا برادری پر مظالم کی روک تھام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری بھی اتنی ہی بری طرح ناکام ہو گئی، جتنا کہ میانمار کی حکومت۔‘‘
جنسی حملوں کے شکار روہنگیا بچے بنگلہ دیش پہنچ کر بھی خوف زدہ
بنگلہ دیش میں دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ، ’منصوبہ خطرناک‘
روہنگیا افراد کا ’ڈراؤنا خواب‘ ختم کیا جائے، گوٹیرش
میانمار کی ریاست راکھین سے، جس کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں، وہاں اگست کے اواخر میں مسلح حملوں اور کریک ڈاؤن کی صورت میں دوبارہ شروع ہو جانے والی خونریزی کی موجودہ لہر کے دوران پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے راکھین میں اس خونریزی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے روہنگیا برادری کی ’نسلی تطہیر‘ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی عالمی ادارے کی سلامتی کونسل میانمار سے یہ مطالبہ بھی کر چکی ہے کہ ملکی فوج راکھین میں اپنا کریک ڈاؤن بند کرے اور بین الاقوامی امدادی کارکنوں کو اس ریاست تک رسائی بھی دی جائے تاکہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔