میانمار روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، عالمی عدالت
23 جنوری 2020
بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے ایک فیصلے میں میانمار کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرے اور عشروں سے ناانصافی کا شکار اس مسلم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اشتہار
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے آج جمعرات تیئیس جنوری کو اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ میانمار کی حکومت کو ملک میں روہنگیا مسلم آبادی کے حفاظت کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔ اس کے علاوہ حکومت کو مسلسل زیادتیوں اور مظالم کا شکار رہنے والی اس نسلی اقلیت کے خلاف کیے گئے مبینہ جرائم کے تمام دستیاب ثبوت بھی بڑی احتیاط سے محفوظ کرنا چاہییں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا، جو زیادہ تر مسلم آبادی والے افریقی ملک گیمبیا کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں گزشتہ برس نومبر میں گیمبیا نے اقوام متحدہ کے 1948ء کے ایک کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے میانمار کے خلاف یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی حکومت ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی تھی۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت
دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف اقوام متحدہ کا وہ اعلیٰ ترین ادارہ ہے، جو اس تنظیم کے رکن ممالک کے مابین کسی بھی قانونی تنازعے کو طے کرنے کے لیے اہم ترین عدالتی پلیٹ فارم بھی ہے۔
آج سنائے گئے فیصلے میں دی ہیگ کی اس عدالت نے ججوں نے صرف گیبمیا کی طرف سے دائر کردہ مقدمے پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ یہ حکم میانمار حکومت کے لیے ایک واضح عدالتی موقف تو ہے لیکن یہ اس عدالت کا اس مقدمے میں بالکل حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ آئی سی جے کے مطابق یہ حکم ان ابتدائی اقدامات سے متعلق ہے، جو میانمار کی حکومت کو فوری طور پر کرنا چاہییں۔ اس مقدمے میں حتمی فیصلہ سنائے جانے میں ممکنہ طور پر کئی برس لگ سکتے ہیں۔
چار ماہ میں عدالت کو مطلع کرنے کا حکم
آئی سی جے کا آج کا فیصلہ اس عدالت کے 17 ججوں پر مشتمل ایک پینل نے متفقہ طور پر سنایا۔ عدالت کے مطابق میانمار کی حکومت کو اس سلسلے میں بلاتاخیر اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ اس ملک میں روہنگیا مسلم اقلیت کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا سلسلہ بند ہو۔
اس بارے میں میانمار حکومت کو اس امر کا پابند بھی بنایا گیا ہے کہ وہ آئندہ چار ماہ میں اس عدالت کو تب تک کیے جانے والے اقدامات سے باقاعدہ طور پر مطلع بھی کرے۔
بنگلہ دیش میں لاکھوں روہنگیا مہاجرین
میانمار کی ریاست راکھین میں، جہاں روہنگیا مسلم اقلیت کا بہت بڑا حصہ آباد تھا، ملکی سکیورٹی دستوں نے اگست 2017ء میں ایک ایسا کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس دوران وہاں سے تقریباﹰ سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا باشندے نقل مکانی کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین آج بھی بنگلہ دیش کے میانمار کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں بہت سے مہاجر کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات میں مقیم ہیں۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے تفتیش کار بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ میانمار کی فوج نے نے روہنگیا اقلیت کے خلاف جو آپریشن کیا تھا، وہ 'نسل کشی کے ارادے‘ کے تحت مکمل کیا گیا تھا۔
جنگی جرائم کا ارتکاب
میانمار کی حکومت نے اس کریک ڈاؤن سے متعلق اپنے طور پر بھی باقاعدہ چھان بین کرائی تھی۔ اس تفتیش کا حال ہی میں یہ نتیجہ سامنے آیا تھا کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب تو کیا گیا تھا تاہم نسل کشی کے شواہد نہیں ملے تھے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
دوسری طرف دی ہیگ کی عدالت کے آج کے ابتدائی حکم سے کچھ ہی گھنٹے قبل برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں میانمار کی سویلین رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ شخصیت اونگ سان سوچی کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں سوچی نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو، تاہم 'روہنگیا مسلمانوں نے مہاجرین کے طور پر اپنے خلاف ناانصافیوں کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا‘۔
مقدمہ خارج کر دینے کا مطالبہ
میانمار کی سویلین رہنما سوچی نے گزشتہ ہفتے دی ہیگ کی عدالت سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ یہ مقدمہ خارج کر دے۔ انہوں نے یہ درخواست اس وقت کی تھی، جب گزشتہ ماہ اس عالمی عدالت نے مسلسل ہفتے بھر تک اس مقدمے کی کئی مرتبہ سماعت کی تھی۔
اقوام متحدہ کی اس عدالت کے فیصلوں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ جب ایک بار سنا دیے جائیں، تو حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف اس عدالت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے سنائے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
روہنگیا مسلمانوں کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تک قریب تین لاکھ ستر ہزارروہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے روہنگیا اقلیت کے ہجرت کے اس سفر کی تصویری کہانی مرتب کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔