1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: سابقہ ملکہ حسن نے بھی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے

12 مئی 2021

تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ میانمار کی ایک سابقہ بیوٹی کوئین نے بھی نسلی باغیوں کے ساتھ مل کر ملکی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔ انہوں نے ایک خود کار رائفل کے ساتھ اپنی ایک تصویر فیس بک پر پوسٹ کی ہے۔

Miss Myanmar International 2013 Htar Htet Htet
تصویر: Nyein Chan Naing/dpa/picture-alliance

 

میانمار یکم فروری کو ملکی فوج کی طرف سے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملکی فوج نے منتخب رہنما سوچی کو اقتدار سے علحیدہ کر کے ملک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اس دوران میانمار کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کیے، جو اب تک جاری ہیں۔ معاشرے کے تقریباﹰ سبھی طبقات، نسلی اور سیاسی گروپوں اور اقلیتی برادریوں کی طرف سے فوجی بغاوت کے خلاف مسلسل مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

 میانمار: نسلی باغی گروپس فوجی جنتا کے خلاف

 

میانمار کے عوام کی فوجی بغاوت کے خلاف انتھک مزاحمت۔تصویر: AP/picture alliance

سابقہ بیوٹی کوئین

میانمار کی سابقہ ملکہ حُسن ٹار ٹیٹ ٹیٹ نے 2013 ء میں تھائی لینڈ میں منعقدہ 'مس گرینڈ انٹرنیشنل بیوٹی شو‘ میں میانمار کی نمائندگی کی تھی۔ انہوں نے سوئمنگ سوٹ اور قومی لباس کے راؤنڈز میں 60 دیگر خواتین کا مقابلہ کیا تھا۔  ٹار ٹیٹ ٹیٹ کا تعلق میانمار کے دور افتادہ جنگلاتی سرحدی علاقے کے نسلی گروپوں میں سے ایک سے ہے۔ 32 سالہ جمناسٹک انسٹرکٹر نے رواں ہفتے اپنے فیس بک پیج پر جنگجوؤں کے سیاہ لباس میں ملبوس اور ہاتھ میں رائفل کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی۔ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا، ''اب وقت آ گیا ہے مزاحمتی جنگ کا۔ چاہے آپ ہتھیار اٹھا لیں یا قلم اور کی بورڈ کی مدد سے جمہوریت نواز تحریک کی جدوجہد میں شامل ہوں اور اس کے لیے چندہ جمع کریں، ہر کسی پر لازم ہے کہ  ہماری انقلابی مہم کو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈالے۔‘‘

لندن میں میانمار کے سفارتخانے پر جونیئر اہلکاروں کا قبضہ، سفیر فارغ

ملک بھر میں مظاہرے جاری۔تصویر: AFP

فوجی بغاوت کے 100 دن

منگل گیارہ مئی کو میانمار میں فوجی جنتا کے حکومت پر قبضے کے ایک سو دن  پورے ہو گئے۔ اس اثناء میں حکمران جرنیلوں کی طرف سے تمام معاملات پر کنٹرول کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ انہوں نے تمام محاذوں پر حالات کو قابو میں کر لیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر ان کی جزوی کامیابی یہاں تک محدود ہے کہ انہوں نے میڈیا کی حد تک اور سڑکوں پر مظاہروں کو کچل دیا ہے۔ آزاد ذرائع سے موصولہ اعداد و شمارکے مطابق میانمار میں عوامی مظاہروں کے دوران اب تک 750 مظاہرین اور راہگیر مارے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشل باچیلٹ نے ایک ماہ پہلے ہی میانمار کی صورتحال کو سنگین قرار دیا تھا۔ باچیلٹ کا کہنا تھا، ''میانمار کی معیشت، تعلیم اور صحت کا بنیادی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے جس سے لاکھوں لوگ روزگار ، بنیادی سماجی خدمات اور غذائی تحفظ سے محروم ہو چکے ہیں۔‘‘

'میانمار کے پناہ گزینوں کو کھانا اور گھر نہ دیں' بھارت

 

طالبعلموں اور اساتذہ کی طرف سے بھی مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔تصویر: Tayfun Salci/Zuma/picture alliance

سول نافرمانی

دریں اثناء میانمار ریلوے کے کارکنوں کے علاوہ ہیلتھ ورکرز نے بھی فوجی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی ہے اور سرکاری طبی مراکز میں خدمات انجام دینا بند کر دی ہیں۔ بہت سے سرکاری ملازمین اور سرکاری اور نجی بینکوں کے کارکن اپنے دفاتر سے غیر حاضر ہیں۔ درسگاہیں اور یونیورسٹیاں فوجی جنتا کے خلاف مزاحمت کے اظہار کا گڑھ بن گئی ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تمام تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل کر دی گئیں، تعلیمی نظام ٹھپ ہو گیا اور اساتذہ، والدین اور طلبہ سبھی نے سرکاری اسکولوں کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔

 

ک م / م م )اے ایف پی ای(

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں