1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: سوچی نے الزامات کی تردید کردی

رپورٹ: شامل شمس ، ادارت: عاطف بلوچ22 مئی 2009

جمعے کے روز ایک فوجی عدالت میں پیشی کے دوران میانمار کی جمہوریت پسند حزبِ مخالف رہنما آؤنگ سان سوچی نے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی ہے۔

خدشہ ہےکہ حکومت سوچی کو لمبے عرصے تک جیل میں قید رکھنا چاہتی ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ سوچی طویل عرصے سے گھر میں نظر بند تھیں اور حال ہی میں میانمار کی فوجی حکومت نے انہیں حکومت مخالف منصوبے میں ملوّث ہونے کے الزام میں جیل میں بند کردیا ہے۔

میانمار کی فوجی خنتا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک امریکی باشندہ حزبِ مخالف رہنما آؤنگ سان سوچی کے گھر تک تیر کر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ فوجی حکومت کے مطابق یہ حکومت مخالف منصوبے کا حصّہ تھا۔ فوجی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملکی اور غیر ملکی عناصر ملوّث ہیں۔

جمعہ کے روز ایک پیشی کے دوران سوچی نے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی ہےتصویر: AP


واضح رہے کہ نوبیل امن انعام یافتہ، جمہوریت پسند رہنما سوچی پر اس واقعے کی بنیاد پر ایک مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ عرصے سے سوچی گھر پر نظر بند تھیں اور میانمار کی فوجی خنتا کے مطابق امریکی شخص کی سوچی کے گھر تک تیر کے جانے کی کوشش نظر بندی کے ضمن میں طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ سوچی کے وکیل نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی شخص کا سوچی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یورپی یونین سمیت امریکہ اور بین الاقوامی برادری نے سوچی پر اس نئے مقدمے کی شدید مذمت کی ہے اور سوچی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے حوالے سے پیر کے روز ویت نام میں یورپی اور ایشیائی رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوگا تاہم مبصرین کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ آؤنگ سن سوچی کا مقدمہ اس اجلاس میں زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔ گو کہ زیادہ تر ایشیائی ممالک نے سوچی پر مقدمے کی مذمت کی ہے تاہم میانمار حکومت کے سب سے بڑے حمایتی ملک چین کا موقف ہے کہ میانمار کے اندرونی معاملات میں دیگر ممالک کی مداخلت کا جواز نہیں ہے۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جس گھر میں آؤنگ سان سوچی کو نظر بند رکھا گیا تھا اس کے اطراف سے حکومت نے حصار ختم کرنا شروع کردیا ہے۔ اس حکومتی کارروائی سے اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ میانمار کی حکومت سوچی کو طویل عرصے تک اب جیل میں مقیّد رکھنا چاہتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں