میانمار کی ایک عدالت نے جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو چار برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ سوچی پر الزامات تھے کہ انہوں نے تشدد پر اکسایا اور کووڈ انیس قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔
اشتہار
میانمار میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کے خلاف یہ اولین عدالتی فیصلہ ہے۔ سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں اور ان کے دیگر سیاسی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جس کے خلاف عوامی مظاہرے ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
پیر کے دن فوجی جنتا کی حمایت یافتہ ایک عدالت نے سوچی کو چار سال کی سزائے قید سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تشدد پر اکسایا اور کووڈ انیس کی روک تھام کیے لیے نافذ کیے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔ تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق سوچی کو یہ سزا سیاسی بدلہ لینے کے لیے سنائی گئی ہے۔
سوچی کے علاوہ سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہی الزامات کے تحت چار برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان دونوں سیاسی رہنماؤں کو ابھی تک جیل منتقل نہیں کیا گیا ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ دونوں سیاسی رہنما اس وقت جہاں موجود ہیں، وہاں سے ان کے خلاف دیگر الزامات کی کارروائی کی جائے گی۔
یہ عدالتی فیصلے گزشتہ ہفتے جمعرات کو سنائے جانا تھے لیکن انہیں موخر کر دیا گیا تھا۔ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی فوجی جنتا کو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ملک میں جمہوری حکومت بحال کرتے ہوئے سوچی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کو آزاد کر دے۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
نوبل امن انعام یافتہ لیڈر آنگ سان سوچی کو دیگر الزامات کا سامنا بھی ہے۔ اگر یہ ان پر یہ الزامات بھی ثابت ہو گئے تو خدشہ ہے کہ انہیں عمر قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ ماضی میں بھی سوچی اسی فوجی اسٹبلشمنٹ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پندرہ برس نظر بندی میں گزار چکی ہیں۔
سوچی کے خلاف الزامات ہیں کیا؟
میانمار میں رواں سال کے آغاز میں فوجی بغاوت کے کچھ دن بعد ہی سوچی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لائیسنس کے بغیر ہی واکی ٹالکیز اور سگنل جامرز رکھے ہوئے تھے۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار بیس کے الیکشن میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاگو کیے گئے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی تھی۔
اس کے کچھ عرصے بعد فوجی حکومت نے ان پر کچھ مزید الزمات بھی عائد کر دیے تھے۔ جن میں ایک الزام یہ بھی شامل تھا کہ سوچی نے نوآبادیاتی دور کےآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔
دیگر الزامات میں الیکٹورل فراڈ اور غیر قانونی اعمال کو بھی شامل کر لیا گیا جبکہ رشوت خوری کے الزامات بھی عائد کر دیے گئے۔ فوجی حکومت کا الزام ہے کہ سوچی نے چھ لاکھ ڈالرز کی کیش رقوم اور گیارہ اعشاریہ چار کلو گرام سونا غیر قانونی طور پر وصول کیا۔
فروری میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت لیگ فارڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے مبینہ طور پر عالمی اداروں کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ میانمار کی فوجی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔ اس پیش رفت کے بعد فوجی جنتا نے تشدد پر اکسانے کا الزام بھی عائد کر دیا تھا۔
اشتہار
میانمار می موجودہ صورتحال کیا ہے؟
میانمار میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہی فوج مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ تقریبا ایک سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ایسے مظاہرے جاری ہیں تاہم فوجی کریک ڈاؤن کے باعث ان کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔
اس سایسی بحران میں کچھ مسلح گروہوں نے اپنی کارروائیاں بھی شروع کر دی تھیں، جن کو کچلنے کی خاطر فوجی ایکشن جاری ہے۔ ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق یکم فروری کے اوائل کے بعد سے اب تک مختلف پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم ازکم بارہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فوجی حکومت لگ بھگ دس ہزار سے زائد سیاسی منحرفین کو گرفتار کر چکی ہے۔
علاقائی اور عالمی برادری کا دباؤ ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت ملکی اقتدار سول حکومت کو سونپے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اگر ملکی فوج نے اس وقت عالمی دباؤ میں آ کر ایسا کیا تو اس کا ملک پر قبضہ ڈھیلا پڑ جائے گا، جو وہ نہیں چاہتی۔