میانمار: فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے پر دو سفارت کار برطرف
20 مئی 2021
ٹوکیو میں میانمار سفارت خانے کے دو سفارت کاروں نے فوجی جنتا کے اقدام کے خلاف ہڑتال کر دی تھی، جس کے بعد انہیں برطرف کر دیا گیا۔
اشتہار
ٹوکیو میں میانمار سفارت خانے کے دو سفارت کاروں کی برطرفی میانمار میں فوجی بغاوت کی مخالفت میں آواز بلند کرنے والوں کے خلاف فوجی جنتا کی جانب سے کارروائیوں کی تازہ ترین کڑی ہے۔
جاپان کے خبر رساں ادارے کیوڈو نے جمعرات کو اطلاع دی کہ ٹوکیو میں میانمار کے سفارت خانے میں ایڈمنسٹریٹر آنگ سوئے موئے اور ان کے معاون کو فوجی جنتا نے برطرف کردیا کیونکہ ان دونوں نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کر دی تھی۔
اشتہار
تقریباً ایک سو سفارت کار برطرف
کیوڈو نے ایک دستاویز کے حوالے سے کہا کہ میانمار کی فوجی جنتا نے یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے والے دنیا بھر میں اپنے تقریباً ایک سو سفارت کاروں کو اب تک برطرف کیا ہے۔
میانمار کی فوج نے فروری میں سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو معزول کر دیا تھا جس کے بعد سے میانمار میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور فوج ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کر رہی ہے۔
کیوڈو کا کہنا ہے کہ دونوں سفارت کار فوجی جنتا کے خلاف پرامن مظاہروں کے حق میں فیس بک پر ایک بیان پوسٹ کرنے کے چند دنوں بعد گیارہ مارچ کو سفارت خانے کے احاطے سے نکل گئے تھے۔ حالانکہ ان دونوں نے اپنے عہدوں سے استعفی نہیں دیا لیکن ان کی سفارتی حیثیت اور پاسپورٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یہ لوگ فی الحال میانمار کے دیگر شہریوں کی مدد سے ٹوکیو میں مقیم ہیں۔
جاپان کا ردعمل
حکومت جاپان کے ترجمان کاتسونوبو کاتو نے جمعرات کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ میانمار کے سفارت خانے نے جاپانی وزارت خارجہ کو مطلع کیا ہے کہ ان دونوں عہدیداروں کے سفارتی ویزے اب برقرار نہیں رہ گئے ہیں۔
کاتو نے کہا کہ ”وزارت خارجہ میانمار کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملے پر غور کررہی ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔"
جاپان نے میانمار میں فوجی بغاوت کی نکتہ چینی اور جمہوریت کو بحال کرنے کی اپیل کی تھی۔ تاہم ٹوکیو پر اس بحران کے سلسلے میں زیادہ سخت موقف اختیار کرنے کے لیے دباو ہے۔
سفارت کاروں کی برطرفی کے حوالے سے میانمار کے سفارت خانے نے فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اپریل میں لندن میں میانمارکے سفیر نے جب آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا تو فوجی جنتا حامیوں نے سفارت خانے پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں اندر بند کر دیا تھا۔
فوجی جنتا کے خلاف احتجاج کرنے پر اقوام متحدہ اور برلن سمیت دیگر مقامات پر میانمار کے دوسرے سفارت کاروں کو بھی اسی طرح کی دھمکی یا برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔
جاپان کے میانمار کے ساتھ انتہائی مضبوط اقتصادی تعلقات ہیں اور اس کی فوج کے ساتھ دیرینہ رشتے ہیں۔
میانمار میں فوجی بغاوت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک جاپانی صحافی کو سفارتی خیرسگالی کے تحت فوجی جنتا نے گزشتہ ہفتے رہا کر دیا تھا اور وہ جاپان واپس لوٹ آیا۔
جاپان میانمار کو سب سے زیادہ مالی امداد دینے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس نے بغاوت کے بعد مارچ میں نئی امداد کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعض ملکوں کی طرح اس کے فوجی اور پولیس کمانڈروں پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔