میانمار: فوجی جنتا کی سوچی کی جماعت کو تحلیل کرنے کی دھمکی
22 مئی 2021
میانمار کی فوجی جنتا نے سن 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر برطرف سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اشتہار
میانمار کے وفاقی الیکشن کمیشن کے چیئرمین تھیئن سوئے نے جمعے کے روز کہا کہ نومبر 2020 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی جانچ تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
الیکشن کمیشن نے میانمار کے انتخابی نظام میں ممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے صلاح و مشورے کے لیے جمعے کے روز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی، لیکن آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کا کوئی نمائندہ اس میں شامل نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے چیئرمین تھیئن سوئے نے ایک مقامی میڈیا کے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں کہا، ''ہمیں این ایل ڈی پارٹی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے جس نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ کیا ہمیں اس پارٹی کو تحلیل کردینا چاہیے یا جن لوگوں نے (یہ غیر قانونی کام) کیا ہے انہیں ملک کا غدا ر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہیے۔‘‘
فوجی جنتا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد آنگ سان سوچی کی پارٹی پر نومبر میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کر کے کامیاب ہونے کے الزامات لگائے تھے۔
این ایل ڈی نے ان انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
جمعرات کے روز مقامی میڈیا نے خبر دی کہ فوجی جنتا نے فوجی جرنیلوں کے لیے لازمی سبکدوشی کی عمر کی حد ختم کر دی ہے۔ جس کے بعد اب من آنگ ہلینگ آئندہ جولائی میں 65 برس کے ہو جانے کے باوجود بھی اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا حال ہے، معیشت مفلوج ہو گئی ہے، فوج احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے اور فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بغاوت کے بعد فوج اور میانمار کے متعدد نسلی باغی گروپوں کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔
آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے متعدد دیگر رہنما بھی گھروں میں نظر بند یا جیلوں میں قید ہیں۔
آنگ سان سوچی پر جرائم کے متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں اور ان کی قانونی ٹیم کو اپنی موکلہ سے براہ راست ملاقات کرنے میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
آنگ سان سوچی پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں گزشتہ برس انتخابی مہم کے دوران کورونا بندشوں کی خلاف ورزی کرنے نیز بغیر اجازت کے واکی ٹاکی رکھنے کے الزامات شامل ہیں۔
تاہم ان پر سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں نوآبادیاتی دور کے قانون 'آفیشل سیکریٹ ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔
قانونی کیس کی سماعت میں کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد امید ہے کہ سوچی پیر کے روز پہلی مرتبہ بذات خود عدالت میں حاضر ہوں گی۔
خیال رہے کہ این ایل نے ڈی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی، لیکن فوج نواز اپوزیشن نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حقوق انسانی کے لیے سرگرم گروپوں نے اس اقدام پر نکتہ چینی کی تھی۔
ایشیئن نیٹ ورک فار فری الیکشن مانیٹرنگ گروپ کا کہنا تھا، ''سن 2020 کے عام انتخابات کے نتائج بڑی حد تک میانمار کے عوام کی خواہش کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
معزول ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ، جس میں بیشتر افراد این ایل ڈی سے وابستہ ہیں، نے فوجی جنتا کے خلاف ایک خود ساختہ 'قومی اتحادی حکومت‘ بنارکھی ہے۔ فوجی جنتا نے اس گروپ کو 'دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔
ج ا/ ش ح (اے ایف پی)
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔