1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار فوج انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث، اقوام متحدہ

16 مارچ 2022

اقوام متحدہ نے میانمار میں گزشتہ برس فوجی بغاوت کے بعد انسانی حقوق کے حوالے سے پہلی جامع رپورٹ شائع کی ہے۔ فوجی بغاوت کے بعد میانمار میں انسانی زندگی کی شرمناک توہین اور انسانیت کے خلاف جرائم کے واضح شواہد ملے ہیں۔

Myanmar Yangon | Proteste gegen Militärputsch
تصویر: AP/picture alliance

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بیچلیٹ نے منگل کے روز پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ گزشتہ برس کی فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں فوج انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیو ں میں مصروف ہے۔ ان میں سے بعض جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔

انہوں نے رپورٹ سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ بہت سے لوگوں کو سر میں گولیاں ماری گئیں، زندہ جلا کرمار ڈالا گیا، کسی الزام کے بغیر گرفتار کیا گیا، اذیتیں دی گئیں یا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اس کے خلاف ''بامعنی کارروائی'' کرنے کی اپیل کی۔

بیچلیٹ نے کہا، "میانمار کے عوام کے ساتھ جس طرح کی زیادتی کی جارہی ہے اور بین الاقوامی قانون کی جس بڑے پیمانے پر اور کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے وہ ایک ٹھوس، متحد اور سخت بین الاقوامی کارروائی کا متقاضی ہے۔"

میانمار آرمی کا کہنا ہے کہ امن اور سکیورٹی کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس نے کسی بھی طرح کی زیادتی سے انکار کیا اور "دہشت گردوں" کو بدامنی پھیلانے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

فروری 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے بعد سے فوج اب تک اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فوجی بغاوت کے بعد سے فوج کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کے بعد مغربی ملکوں نے فوج پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے کم از کم 1600 لوگوں کو ہلاک کردیا ہےتصویر: AP/picture alliance

'منظم حملے'

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ متاثرین کے ساتھ بات چیت نیز عینی شاہدین کے بیانات پر مبنی ہے۔ اس میں تصاویر اور مصدقہ ملٹی میڈیا فائلز اور اوپن سورس سے دستیاب اطلاعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

فوج کو ملک کے دیہی علاقوں میں برطرف حکومت سے وابستہ ملیشیا کی جانب سے مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے سگینگ خطے میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ ہلا ک ہونے والے بہت سے لوگوں کے ہاتھ اور پاوں بندھے ہوئے ملے تھے۔

رپورٹ کے مطابق کایاہ ریاست میں عورتوں اور بچوں کی جلی ہوئی لاشیں پائی گئیں۔ ان میں سے بعض کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ انہوں نے بچنے کی کوشش کی تھی لیکن زندہ جلا دیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار شدگان کو پوچھ گچھ کے دوران اذیتیں دی گئیں، انہیں چھت سے الٹا لٹکایا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے، منشیات کے انجکشن دیے گئے اور ریپ سمیت جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی ترجمان روینا شمداسانی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہمیں گزشتہ برس ایک پیٹرن کا پتہ چلا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند، منظم اور مربوط حملے تھے۔ اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ یہ جنگی جرائم  اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔"

خیال رہے کہ گزشتہ برس میانمار آرمی نے اقوام متحدہ اور اس کے آزاد ماہرین کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیرمعتبر اطلاعات اور مخالف گروپوں کے بیانات پر انحصار کرتے ہیں۔

روہنگیا مسلم اقلیت کی ایک بڑی آبادی کو سن 2017 میں ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تصویر: KM Asad/ZUMA/picture-alliance

سینکڑوں افراد کا قتل

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے کم از کم 1600 لوگوں کو ہلاک کردیا جب کہ 12500 سے زائد قید میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کم از کم 440000 افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ ایک کروڑ 40لاکھ کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ لیکن فوج نے نئے اور سابقہ ضرورت مند علاقوں تک رسائی بڑی حد تک روک رکھی ہے۔

سن 2021 میں فوجی بغاوت سے پہلے بھی میانمار میں انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔

ملک کی روہنگیا مسلم اقلیت کی ایک بڑی آبادی کو سن 2017 میں ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس وقت آنگ سان سوچی کی حکومت تھی۔ ان کی حکومت میں فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے متعدد گاوں جلا دیے اور شہریوں کو ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ نے میانمار فوج کی اس کارروائی کو "نسلی تطہیر کی مثال" قرار دیا تھا۔

 ج ا/  ص ز(اے ایف پی، روئٹرز)

بھارت: روہنگیا خواتین شدید مشکلات سے دوچار

04:10

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں