1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار ميں شيلنگ، دو روہنگیا خواتین ہلاک

25 جنوری 2020

میانمار ميں شیلنگ سے دو روہنگیا خواتین کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ فوج کے مطابق یہ ہلاکتیں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں ميں ہوئیں جبکہ عسکریت پسندوں نے فوج کے ساتھ جھڑپوں کی تردید کی ہے۔

Myanmar KIA-Soldaten
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/N. C. Niang

میانمار کی فوج کے ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ شمالی ریاست راکھین میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے ایک روہنگیا خاتون موقع پر ہی ہلاک ہو گئی اور دوسری ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ فوج کے ترجمان نے خواتین کی ہلاکت کی ذمہ داری روہنگیا عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر عائد کی ہے۔

دوسری جانب روہنگیا عسکریت پسند تنظیم اراکان آرمی نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اُن کی میانمار کی فوج کے ساتھ کسی قسم کی کوئی لڑائی یا جھڑپ نہیں ہوئی ہے۔ اراکان آرمی نے میانمار فوج کے الزام کو جھوٹ پر مبنی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔

روہنگیا خواتین کی ہلاکتیں ایسے وقت پر ہوئیں ہیں جب اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف نے میانمار کی حکومت کو کہا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت یقینی بنائے اور ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ عدالت نے میانمار کی حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ مسلسل زیادتیوں اور مظالم کا شکار رہنے والی اس اقلیت کے خلاف کیے گئے جرائم کے تمام ثبوت بھی احتیاط سے محفوظ کرے۔

راکھین میں ہزاروں روہنگیا مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/P. Hein Kyaw

بین الاقوامی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا، جو زیادہ تر مسلم آبادی والے افریقی ملک گیمبیا کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں گزشتہ برس نومبر میں گیمبیا نے اقوام متحدہ کے 1948ء کے ایک کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے میانمار کے خلاف یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی حکومت ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی۔

یہ امر اہم ہے کہ شورش زدہ ریاست راکھین کا شمالی علاقہ سن 2017 میں میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن کا نشانہ بنا۔ اس کریک ڈاؤن کے بعد سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر گئے تھے۔ ابھی بھی راکھین میں ہزاروں روہنگیا مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اسے نسلی تعصب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ع ح ⁄ ع س ( اے ایف پی)

’’تعلیم سب کے لیے ہے تو روہنگیا کے لیے کیوں نہیں؟‘‘

01:43

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں