میانمار ميں فوجی بغاوت کی پہلی برسی، مزید امریکی پابندیاں
1 فروری 2022
امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے آنگ سان سوچی کے خلاف کارروائی میں ملوث میانمار کے اعلیٰ عہدے داروں پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ معزول ہونے کے ایک برس بعد، سوچی پر انتخابی اہلکاروں کو متاثر کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اشتہار
برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے پیر کے روز میانمار کے حکام کے خلاف مربوط پابندیوں کے سلسلے میں ایک نیا اعلان کیا۔ دوسری جانب اسی روز میانمار کے حکمران فوجی جنتا نے سابق رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف نئے الزامات بھی عائد کردیے۔
مغربی ممالک کی جانب سے یہ پابندیاں ایسے وقت عائد کی گئی ہیں جب ملک میں سوچی کے خلاف فوجی بغاوت کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ اس بغاوت کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور پھر اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع ہوا جس میں کم از کم 1,500 شہری ہلاک ہوئے۔
تینوں ممالک نے ایک ساتھ مل کر میانمار کے اٹارنی جنرل تھیڈا او، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹون ٹون او اور انسداد بدعنوانی کمیشن کے چیئرمین ٹن او پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ یہ افراد جمہوریت نوازرہنما سوچی کے خلاف ''سیاسی مقاصد کے تحت'' مقدمہ چلانے کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس سے، ''حکومت نے بغاوت کے بعد جو پر تشدد اقدامات کیے ہیں، اس کے لیے احتساب کو فروغ دیا جا سکے گا۔''
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج
03:55
سو برس تک قید کی سزا
ایک طرف مغربی ممالک نے فوجی حکمرانوں کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا، تو دوسری جانب فوجی جنتا نے آنگ سان سوچی پر 2020 کے الیکشن کے دوران انتخابی عہدیداروں پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان انتخابات میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے فوج سے منسلک حریف جماعت کو شکست دی تھی۔
فوجی جنتا نے سوچی پر غیر قانونی طور پر واکی ٹاکی درآمد کرنے اور کووڈ19 پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے سمیت کئی الزامات پہلے ہی عائد کیے تھے اور اب اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری رازداری قوانین کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا ہے۔
اگر یہ تمام الزامات ثابت ہو گئے تو 76 سالہ سوچی کو مجموعی طور پر 100 برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
فوجی جنتا نے الیکشن میں دھاندلی کا دعویٰ کرتے ہوئے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے بغاوت کی سالگرہ سے قبل شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ سوچی کی حمایت میں حکومت مخالف مظاہروں یا احتجاج کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سوچی 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں 15 برس تک فوجی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ نظر بندی کے سبب گھر میں ہی رہیں۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں پر انہیں 1991 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
سن 2016 میں بعض جمہوری اداروں کو کچھ اختیارات کی منتقلی کی بھی انہوں نے نگرانی کی، تاہم میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے قتل عام اور تشدد سے انکار کی وجہ سے ان کی ساکھ جلد ہی داغدار بھی ہو گئی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔