میانمار میں باغیوں پر فضائی حملے اور بان کی مون کی تشویش
3 جنوری 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان مارٹِن نصیرکی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے چیف نے کاچین صوبے میں باغیوں پر کیے جانے والے مبینہ فضائی حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ادھر ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے بتایا ہے کہ فوج نے ایسے حملوں سے حکومت کو آگاہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
نصیرکی نے کہا، ’’عالمی ادارے کے سربراہ نے ایسی تازہ ترین رپورٹوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے، جن کے مطابق میانمار کی افواج کاچین صوبے میں نسلی باغیوں کے خلاف فضائی حملے کر رہی ہیں۔‘‘
نصیرکی نے مزید کہا، ’’جیسا کہ اس بارے میں اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، سیکرٹری جنرل نے میانمار کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے ایکشن نہ لیں، جن کی وجہ سے شہری ہلاکتوں کا خدشہ ہو اور علاقے میں تنازعہ مزید شدت اختیار کر جائے۔‘‘
اصلاحات کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ
اطلاعات کے مطابق کاچین میں مسلح باغی گروہ KIO اور فوج کے مابین لڑائی کچھ دنوں سے شدت اختیار کر چکی ہے۔ عینی شاہدین کے بقول حکومتی فضائیہ گزشتہ پانچ دنوں سے حملے کر رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملکی فوج کاچین میں باغیوں کے ایک اہم اڈے کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
صدر تھین سین کے مشیر اور امن مذاکارات میں شریک حکومتی سفارتکار Hla Maung Shwe نے اے ایف پی کو بتایا ہے ، ’’ہم نے سنا ہے کہ فوج نے اس کیمپ پر قبضے کے لیے ہیلی کاپٹر اور تربیتی جیٹ طیاروں کا استعمال کیا ہے۔
اس تنازعے میں شدت کی وجہ سے ایسے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری اصلاحات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ نصیرکی کے بقول بان کی مون نے اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس تنازعہ کا پائیدار حل تلاش کریں۔
جون 2011ء میں حکومت اور باغیوں کے مابین سترہ سالہ پرانا فائر بندی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد سے کاچین میں 75 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
(ab/ai (AFP, dpa