1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں بم دھماکے ’معمولی بات نہیں‘

24 فروری 2018

میانمار کی ریاست راکھین کے دارالحکومت میں تین بم دھماکے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ اس صوبے میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے صورتحال پہلے ہی پرتناؤ ہے۔

Myanmar Bombenexplosionen
تصویر: picture-alliance/AP Photo

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے میانمار کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ چوبیس فروری بروز ہفتہ ہونے والے ان دھماکوں کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے۔ یہ کارروائی شورش زدہ صوبے راکھین کے دارالحکومت میں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب وہاں پہلے سے ہی تناؤ کی ایک کیفیت نمایاں ہے۔

دیہاتوں کی مسماری، ’روہنگیا تاریخ کے خاتمے کی کوشش‘

فائر بندی کے باوجود حکومتی آپریشن جاری، کاچین باغیوں کا دعویٰ

شمالی میانمار میں تشدد، ہزاروں شہری چین فرار

ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ جاری

00:45

This browser does not support the video element.

پولیس نے بتایا ہے کہ یہ تینوں دھماکوں مختلف مقامات پر ہوئے، جن میں سے ایک بم حملہ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے گھر پر کیا گیا۔ اگرچہ اس ریاست میں روہنگیا مسلمانوں اور کٹر نظریات کی حامل مقامی بدھ کمیونٹی کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے لیکن راکھین میں اس طرح کے بم دھماکے غیرمعمولی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پولیس کی طرف سے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن ہی سکیورٹی اہلکاروں نےتین ایسے بم ناکارہ بنا دیے، جو پھٹے نہیں تھے۔ ویتوی کے ایک رہائشی زو زو نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’ان دھماکوں کے بعد پولیس نے کچھ شاہراہوں کو بند کر دیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دھماکوں کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی تاہم پھر بھی قریبی علاقوں میں قائم کچھ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

راکھین میں حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم سات لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں میانمار کی حکومت پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ راکھین میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بناتے ہوئے ان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل شروع کرے۔

میانمار میں مقیم بین الاقوامی تجزیہ نگار ڈیوڈ میتھیسن نے راکھین میں ہوئے ان بم دھماکوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ویتوی میں ہوئی اس تازہ کارروائی سے راکھین میں نسلی کشیدگی کو ہوا مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راکھین میں فعال علیحدگی پسند گروہ ’آراکان آرمی‘ کے پاس ہی اتنی اہلیت ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائی سر انجام دے سکتی ہے۔

فوری طور پر ان حملوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ حقائق جاننے کی خاطر تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ میانمار میں علحیدگی پسندی کی تحریک کافی پرانی ہے، جہاں ماضی میں ایسے باغی گروہ اس طرح کی پرتشدد کارروائیاں سر انجام دے چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں