عالمی تنظیموں کے مطابق میانمار میں سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں دس روہنگیا باشندوں کے قتل کا اعتراف سچائی کا محض ایک حصہ اور ریاست راکھین میں اس مسلم اقلیت کے خلاف سرکاری فورسز کی پرتشددکارروائیوں کی ایک ’چھوٹی سی مثال‘ ہے۔
اشتہار
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے راکھین ریاست میں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس ریاست میں روہنگیا برادری کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی صرف ’ایک چھوٹی سی مثال‘ ہے اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے دن نامی گاؤں میں ملکی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس برادری کے خلاف وسیع تر بنیادوں پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کارروائیوں کا ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ برس سمتبر کی دو تاریخ کو پیش آیا تھا، جس میں میانمار حکومت کے مطابق کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے مقامی بودھ بھکشوؤں کے ساتھ مل کر دس روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا باشندوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی بابت بین الاقوامی تحقیقات کی جانا چاہییں۔
روہنگیا کے بارے میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں پر مقدمہ
00:43
انسانی حقوق کی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر میتھیو سمِتھ کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین کے شمالی حصے میں اسی طرز کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جہاں روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد فوجی کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تھا۔
گزشتہ برس اگست کے اواخر میں شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔
ایک ای میل کے ذریعے میتھیو سمِتھ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’قتل عام اور اجتماعی قبریں راکھین ریاست کے شمالی حصے کے تین قصبوں میں ایک بڑی تلخ حقیقت ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے متعدد دیہات میں فوج کے ہاتھوں قتل عام، جنسی زیادتیوں اور پورے کے پورے گاؤں نذر آتش کیے جانے سے متعلق ’واضح شواہد‘ جمع کیے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاقائی ڈائریکٹر برائے جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک جیمز گومیز کا کہنا ہے کہ میانمار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات جمع کی گئی ہیں۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے نائب ڈائریکٹر فِل رابرٹسن نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے حقائق کی جانچ کرنے والے کمیشن کو ملک میں داخلے کی اجازت دے اور احتساب کا راستہ ہموار کر کے اس بابت اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
واضح رہے کہ بدھ کے روز میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دس روہنگیا مردوں کو یکم ستمبر کو ایک گاؤں میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ ان سے تفتیش کے بعد انہیں اگلے روز ہلاک کر دیا گیا تھا۔