1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں ملٹری جنتا کے اقتدار کے 100 دن

11 مئی 2021

میانمار میں فوجی حکومت کے اقتدار پر قبضے نے ملک کو انتشار میں دھکیل دیا ہے۔ فوجی جنتا ملکی حالات پر کنٹرول کے لیے جتنی بھی کوشش کر لے حقیقت یہ ہے کہ عوامی زندگی بُری طرح مفلوج ہو چُکی ہے۔

Myanmar General Min Aung Hlaing
تصویر: AP Photo/picture alliance

میانمار کی  فوج نے پہلی فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے علحیدہ کیا اور ملک کے تمام شعبوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ تاہم تب سے ہی یہ امر واضح تھا کہ وہ میانمار کے ریلوے نظام تک کو نارمل طریقے سے نہیں چلا پائے۔ یہاں تک کہ ٹرینیں وقت پر اپنی نقل و حرکت نہیں کر پا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں فوجی حکومت کے خلاف سب سے پہلے سرکاری ریلوے کے کارکنوں نے احتجاج کیا اور ہڑتال کا اعلان کیا۔

 میانمار: نسلی باغی گروپس فوجی جنتا کے خلاف

سول نافرمانی

میانمار ریلوے کے کارکنوں کے علاوہ ہیلتھ ورکرز نے بھی فوجی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور سرکاری طبی مراکز میں خدمات انجام دینا بند کر دیں۔ بہت سے سول سرونٹس اور سرکاری اور نجی بینکوں کے ملازمین اپنے دفاتر سے غیر حاضر ہو گئے۔ تعلیمی درسگاہیں اور یونیورسٹیاں فوجی جنتا کے خلاف مزاحمت کے اظہار کا گڑھ بن گئیں۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں، تعلیمی نظام ٹھپ ہو گیا اور اساتذہ ، والدین اور طالبعلوں سبھی نے سرکاری اسکولوں کا بائیکاٹ کر دیا۔میانمار میں فوجی کارروائی کے خلاف سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد منظور

 

میانمار میں بُدھ مت کے پیروکار بھی فوجی بغاوت کی مخالفت میں مظاہرے کرتے ہوئے۔تصویر: AP Photo/picture alliance

فوجی بغاوت کے 100 دن

 

میانمار میں فوجی جنتا کے حکومت پر قبضے کے ایک سو دن گزرنے کے بعد حکمران جرنیلوں کی طرف سے تمام معاملات پر کنٹرول کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ انہیں یہ  خوش فہمی ہے کہ انہوں نے تمام محاذوں پر حالات کو قابو کر لیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر ان کی جزوی کامیابی یہاں تک محدود ہے کہ انہوں نے  میڈیا کی حد تک اور سڑکوں پر مظاہروں کو کچل دیا ہے۔ آزاد ذرائع سے موصولہ اعداد و شمارکے مطابق میانمار  میں عوامی مظاہروں کے دوران اب تک 750 مظاہرین اور راہگیر مارے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشل باچیلٹ نے ایک ماہ پہلے ہی میانمار کی صورتحال کو سنگین قرار دیا تھا۔ باچیلٹ کا کہنا تھا،'' میانمار  کی معیشت، تعلیم اور صحت کا بنیادی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے جس سے لاکھوں لوگ روزگار ، بنیادی سماجی خدمات اور غذا کے تحفظ  سے محروم  ہو چُکے ہیں۔

 

میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن، چین خاموش تماشائی

ریلوے کے کارکنوں کے علاوہ ہیلتھ ورکرز نے بھی فوجی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔تصویر: Handout/SHWE PHEE MYAY NEWS AGENCY/AFP

ملٹری جنتا کو چیلنجز کا سامنا

ادھر میانمار کی فوجی جنتا کو بھی عسکری چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور سے مزاحمتی سرحدی علاقوں میں جہاں نسلی اقلیتی گروپ سیاسی طاقت رکھتے ہیں اور ان کی اپنی گوریلا فورسز بھی ہیں۔ جنگی صورتحال کی سختیاں جھیلے ہوئے دو ایسے تجربہ کار گروپ شمال میں کاچن اور مشرق میں کارن میں ہیں۔ ان دونوں گروپوں نے میانمار کی عوامی احتجاجی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے لڑائی تیز تر کر دی ہے۔ وہ میانمار کی فوج تتماداؤ کا زیادہ قوت کے ساتھ مقابلے بھی کر رہے ہیں اور فضائی حملے بھی کررہے ہیں۔

ک م/ ش ج) اے پی ای( 

  

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں