1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں نسلی عصبیت کی پالیسی ختم کی جائے، ایمنسٹی

عاطف بلوچ ڈی پی اے
21 نومبر 2017

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق میانمار حکومت روہنگیا مہاجرین کو نسلی امتیاز کی پالیسی کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس ادارے نے زور دیا ہے کہ نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم اس نظام کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی ایکشن کی ضرورت ہے۔

Bangladesch Rohingya fliehen aus Myanmar
تصویر: Reuters/J. Silva

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے انسانی حقوق کےادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو ریاستی سطح پر نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار میں نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم اس نظام کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی ایکشن کی ضرورت ہے۔

روہنگيا مہاجرين کے بحران کے حل کے ليے يورپی يونين متحرک

جرمنی کی طرف سے روہنگیا مہاجرین کے لیے اضافی مدد کا عہد

سوچی کی سلامتی کونسل کے بیان پر تنقید

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

03:12

This browser does not support the video element.

اکیس نومبر بروز منگل بنکاک میں شائع کردہ اس رپورٹ کے مطابق میانمار میں روہنگیا اقلیت کے مصائب کے خاتمے اور انہیں نسلی عصبیت سے چھٹکارہ دلانے کی خاطر عالمی برداری کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

اس رپورٹ کے مطابق میانمار کی حکومت نے منظم انداز میں روہنگیا مہاجرین کو علیحدہ رکھا اور اُن کے حقوق کی خلاف ورزی جاری رکھی۔ مزید یہ کہ میانمار حکومت نے نسلی امتیاز کی پالیسی اپنا کر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اسی تنظیم کی ریسرچر آنا نیسٹاٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں ریفیوجی کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین واپس میانمار جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آنا نیسٹاٹ کے مطابق روہنگیا مہاجرین باوقار واپسی چاہتے ہیں اور وہ میانمار میں اپنی قانونی شناخت حاصل کرنے کو بھی اہم خیال کرتے ہیں۔

نسلی عصبیت پر مبنی ریاستی نظام کے تحت ملک میں حکومت نسل کی بنیاد پر پالیسیاں بناتی ہے۔ اس نسل پرستانہ نظام حکومت کے تحت اقلیتیں اور محروم طبقے مراعات سے محروم رہتے ہیں بلکہ وہ مرکزی سماجی دھارے میں شامل ہونے کے اہل بھی نہیں ہوتے۔ جنوبی افریقہ میں انیس سو اڑتالیس تا 1991 قائم حکومت بھی نسلی عصبیت کی پالیسیوں پر مبنی تھی، جو اس نظام کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

تاہم میانمار کی حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ کسی اقلیت کے خلاف نسلی عصبیت کی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اگست سے اب تک بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھ لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

میانمار کی خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ روہنگیا مہاجرین کی واپسی کا سمجھوتا طے پا جائے گا۔ اس سمجھوتے کے لیے دونوں ملکوں کے اہلکار بدھ اور جمعرات کو تفصیلات طے کریں گے۔

نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی کے مطابق سمجھوتا طے پانے کے فوری بعد روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیشی کیمپوں سے واپسی کے پروگرام کو عملی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام روہنگیا مہاجرین کی محفوظ اور رضاکارانہ واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں