ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق میانمار حکومت روہنگیا مہاجرین کو نسلی امتیاز کی پالیسی کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس ادارے نے زور دیا ہے کہ نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم اس نظام کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی ایکشن کی ضرورت ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے انسانی حقوق کےادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو ریاستی سطح پر نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار میں نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم اس نظام کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی ایکشن کی ضرورت ہے۔
اکیس نومبر بروز منگل بنکاک میں شائع کردہ اس رپورٹ کے مطابق میانمار میں روہنگیا اقلیت کے مصائب کے خاتمے اور انہیں نسلی عصبیت سے چھٹکارہ دلانے کی خاطر عالمی برداری کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
اس رپورٹ کے مطابق میانمار کی حکومت نے منظم انداز میں روہنگیا مہاجرین کو علیحدہ رکھا اور اُن کے حقوق کی خلاف ورزی جاری رکھی۔ مزید یہ کہ میانمار حکومت نے نسلی امتیاز کی پالیسی اپنا کر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اسی تنظیم کی ریسرچر آنا نیسٹاٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں ریفیوجی کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین واپس میانمار جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آنا نیسٹاٹ کے مطابق روہنگیا مہاجرین باوقار واپسی چاہتے ہیں اور وہ میانمار میں اپنی قانونی شناخت حاصل کرنے کو بھی اہم خیال کرتے ہیں۔
نسلی عصبیت پر مبنی ریاستی نظام کے تحت ملک میں حکومت نسل کی بنیاد پر پالیسیاں بناتی ہے۔ اس نسل پرستانہ نظام حکومت کے تحت اقلیتیں اور محروم طبقے مراعات سے محروم رہتے ہیں بلکہ وہ مرکزی سماجی دھارے میں شامل ہونے کے اہل بھی نہیں ہوتے۔ جنوبی افریقہ میں انیس سو اڑتالیس تا 1991 قائم حکومت بھی نسلی عصبیت کی پالیسیوں پر مبنی تھی، جو اس نظام کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم میانمار کی حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ کسی اقلیت کے خلاف نسلی عصبیت کی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اگست سے اب تک بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھ لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
میانمار کی خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ روہنگیا مہاجرین کی واپسی کا سمجھوتا طے پا جائے گا۔ اس سمجھوتے کے لیے دونوں ملکوں کے اہلکار بدھ اور جمعرات کو تفصیلات طے کریں گے۔
نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی کے مطابق سمجھوتا طے پانے کے فوری بعد روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیشی کیمپوں سے واپسی کے پروگرام کو عملی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام روہنگیا مہاجرین کی محفوظ اور رضاکارانہ واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔