اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے میانمار کی فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کو ہتھیاروں کی سپلائی روک دینے کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ میں جمعہ 18 جون کو منظور کی گئی قرارداد پر عمل کرنا رکن ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازم نہیں، تاہم آنگ سان سوچی کی حکومت کو برطرف کرنے والی میانمار کی فوجی جنتا کے خلاف یہ بین الاقوامی مخالفت کا سخت اظہار ہے۔
اس قرارداد کی تائید 119 ممالک نے کی جب کہ صرف بیلاروس نے اس کی مخالفت کی۔ چین، روس، بھارت اور 33 دیگر ممالک نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
یہ ووٹنگ اس وقت ہوئی ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمار کی صورت حال پر باضابطہ بات چیت کر رہی ہے۔ میانمار میں یکم فروری کو بغاوت میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ووٹنگ سے قبل اپنے خطاب میں کہا، ”ہم ایک ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جہاں فوجی بغاوت ایک معمول بن جائے۔ یہ یکسر ناقابل قبول ہے۔"
میانمار کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر کرسٹین شارنر برگنر کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد وہاں ”بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔"
انہوں نے کہا، ”یہ عمل کرنے کا وقت ہے، فوجی قبضے کو ختم کا موقع ضائع ہوتا جا رہا ہے۔"
میانمارکے سفیر نے فوجی جنتا کے خلاف ووٹ دیا
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کاو موئے ٹن ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ انہوں نے بغاوت اور فوجی جنتا کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ وہ (کاو موئے) اب ملک کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اشتہار
اس قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہ ہونے کے باوجود یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ فوجی جنتا اور مظاہرین کے خلاف اس کی کارروائیوں کے خلاف بین الاقوامی مخالفت کی واضح نشانی ہے۔
اس قرارداد میں فوج سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ”پرامن مظاہرین کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو فوراً بند کرے۔"
اقوام متحدہ میں یورپی یونین کے سفیر اولف اسکوگ کا کہنا تھا، ”یہ آج کی تاریخ میں میانمار کی صورت حال پر سب سے جامع اور سخت ترین مذمت ہے۔"
سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ
ملک کی منتخب سربراہ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر عہدیدار اب بھی نظر بند ہیں۔
فوجی جنتا کا کہنا ہے کہ اس نے اقتدار پر اس لیے قبضہ کیا کیونکہ حکومت نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ حالانکہ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طورپر منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں این ایل ڈی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔
فوج کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی میانمار میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ جمہوریت کو بحال کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز نامی ایک تنظیم کے مطابق مظاہرین کے خلاف فوج کی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ج ا / ا ب ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔