1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راکھین ریاست میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ دوسرے سال میں داخل

21 جون 2020

میانمار کی راکھین ریاست میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی دوسرے برس میں داخل ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی ختم کی جائے۔

Myanmar - Soldat in Rakhine
تصویر: picture-alliance/Y. Aung Thu

واضح رہے کہ جنوری 2019 میں علیحدگی پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن کے تناظر میں اس ریاست میں انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کورونا وائرس کی متعدی وبا کے دور میں عام شہریوں کو معلومات کی فراہمی نہایت ضروری ہے اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے عام شہری شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔

" فوج کورونا کی آڑ میں اپنا سیاسی ایجنڈا پھیلا رہی ہے"

میانمار روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، عالمی عدالت

راکھین میں مقامی بدھ آبادی کے لیے زیادہ خودمختاری کی مسلح لڑائی میں مصروف تنطیم آراکان آرمی کے خلاف ملکی فورسز نے جنوری 2019 میں آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس آپریشن کے تناظر میں گزشتہ برس جون کی اکیس تاریخ کو راکھین اور ہم سایہ ریاست چِن  میں کئی رہائشی علاقوں کے لیے انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے مقامی آبادی کو اس تنازعے سے متعلق معلومات کا حصول مشکل تر بنا ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس انٹرنیٹ بندش کو 'دنیا کا سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن‘ قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ لِنڈا لاخدیر کے مطابق، ''عالمی وبا کے دوران عام افراد کے لیے معلومات کی ترسیل اشد ضروری ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ اب تک میانمار میں 287 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ اس وبا سے جڑی ہلاکتیں چھ ہیں، تاہم ماہرین خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کم اعداد و شمار اصل میں ٹیسٹ نہ ہونے کے سبب ہیں اور حقیقیتِ حال اس سے کہیں مختلف ہو سکتی ہے۔

میانمار میں ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ فی الحال کم از کم رواں برس اگست تک، آٹھ رہائشی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ ان کمپنیوں کے مطابق حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بندش 'غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام‘ کے لیے نافذ کی گئی تھی۔

ع ت، ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں