1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی جنتا نے میانمار کے پانچ میڈیا ہاؤسز بند کر دیے

9 مارچ 2021

میانمار میں فوج نے میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کردیا ہے۔ ملک میں درجنوں صحافی پہلے ہی زیر حراست ہیں۔

Myanmar | Proteste nach Militärputsch
تصویر: SOPA/ZUMA Wire/imago images

پیر کو حکومت نے ملک میں جاری مظاہروں اور پرتشدد واقعات کی کوریج کرنے والے پانچ میڈیا ہاؤسز کے لائسنس منسوخ کر دیے۔ سرکاری چینل ایم آر ٹی وی کے مطابق ان میڈیا ہاؤسز پر کسی بھی ٹیکنالوجی یا میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نشریات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

میانمار میں فوج کے زبردستی اقتدار پر قبضے کے خلاف جوں جوں مظاہرے بڑھ رہے ہیں، حکام کی طرف سے احتجاج کچلنے میں بظاہر تیزی آ رہی ہے۔

کریک ڈاؤن میں اضافہ

ان میڈیا ہاؤسز نے ملک کے بگڑتے حالات کی مسلسل کوریج کی تھی اور بعض نے اپنے ڈجیٹل پلیٹ فارمز پر عوامی مظاہرے لائیو دکھائے کیے تھے۔

پابندی کی زد میں آنے والے میڈیا ہاؤسز میں ''میانمار ناؤ‘‘ نیوز سروس بھی شامل ہے۔ اس ادارے کے مطابق پیر کو پولیس اہلکار ان کے دفتر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے اور ان کے کمپیوٹر، پرنٹر اور دیگر مواد اٹھا کر لے گئے۔ ادارے کے مطابق اس نے یہ دفتر پانچ ہفتے پہلے ہی بند کر دیا تھا۔

تصویر: picture-alliance/EPA/N. C. Naing

میانمار میں فوج نے پہلی فروری کو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور تب سے منتخب نمائندوں سمیت سینکڑوں لوگوں کو نظر بند کر رکھا ہے۔ پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں فوج کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ پر تشدد واقعات میں کم از کم 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

مزاحمت جاری رہے گی

''میانمار ناؤ‘‘ نیوز سروس کے ایڈیٹر ان چیف سُوے وِن کے مطابق اس وقت ملک میں صحافتی کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جیل بھی جا سکتے ہیں اور جان سے بھی جا سکتے ہیں، ''لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یہ حکومت ملک بھر میں جن جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے، ہم اس کی کوریج بند نہیں کریں گے۔‘‘

پابندی کا نشانہ بننے والے ایک اور نجی میڈیا گروپ ''مِزیما‘‘ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے آن لائن اور ملٹی میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ''فوجی اقتدار کے خلاف اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں لڑتے رہیں گے۔‘‘

تصویر: Str/AFP/Getty Images

میانمار میں فوج لمبا عرصہ اقتدار پر قابض رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں کے دوران ملک میں آہستہ آہستہ جمہوری اصلاحات متعارف ہونا شروع ہوئی تھیں۔ تاہم اس دوران بھی اظہار آزادی پر قدغنیں رہیں اور ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ فوج کی مبینہ زیادتیوں پر رپوٹنگ کی اجازت نہیں تھی۔

لیکن مبصرین کے مطابق اقتدار پر فوج کے براہ راست قبضے کے بعد ملک جمہوری اقدار کے حوالے سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔

 

ش ج / ا ب ا (اے پی، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں