روہنگیا مہاجرین کے خلاف کیے جانے والے مسلح آپریشن کے دوران میانمار کی فوج کے بعض اراکین وسيع پيمانے پر مبينہ جنسی استحصال کے مرتکب بھی ہوئے۔ اس مناسبت سے ایک رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کر دی گئی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مسودے کے مطابق میانمار کی مسلح فوج کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال کے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ کی ایک ایڈوانس کاپی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے حاصل کی ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کو پیش کر دی گئی ہے۔ گوٹیرش اب یہ رپورٹ سلامتی کونسل میں پیر سولہ اپریل کو پیش کریں گے۔
یہ رپورٹ بنگلہ دیش میں مقیم سات لاکھ کے قریب روہنگیا مہاجرین کے متاثرین سے انٹرویوز پر مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں میں انٹرنینشنل میڈیکل اسٹاف بھی شامل تھا، جنہوں نے متاثرہ افراد کے بیانات اور کلینیکل شواہد کو جمع کیا۔ مقامی زبان میں روہنگیا افراد کے خلاف فوج کی مبینہ پرتشدد کارروائی اور جنسی زیادتی کے عمل کو ’ٹاٹمادا‘ کہا جاتا ہے۔
انٹونیو گوٹیرش نے اس رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ میانمار کی فوج اور مقامی ملیشیا اکتوبر سن 2016 اور اگست سن 2017 میں روہنگیا آبادی کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کے دوران پرتشدد واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان واقعات میں جنسی تشدد کو مرکزیت حاصل رہی تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے رپورٹ وصول کرنے بعد کہا کہ میانمار کی فوج نے اپنے آپریشن کے دوران روہنگیا آبادی کو بے عزت کرنے، خوف زدہ اور اجتماعی طور پر سزا دینے کی حکمت عملی اپنائی اور اسی کی وجہ سے یہ لاکھوں افراد اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
انٹونیو گوٹیرش نے یہ بھی کہا کہ اس جبر اور ظلم کا نشانہ خاص طور پر خواتین کو بنایا گیا۔ اس ظلم وستم میں حاملہ عورتوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کی گئی کیونکہ وہ اس نسلی گروپ کے مستقبل کے بچوں کو جنم دینے والی تھیں۔ سیکرٹری جنرل کے مطابق جبر کا نشانہ کم سن بچوں کو بھی بنایا گیا۔
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔