میانمار میں فوجی عدالت نے معزول جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف بدعنوانی کے چند مزید مقدمات درج کر لیے ہیں۔ سوچی گزشتہ برس یکم فروری سے زیرحراست ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مصدقہ ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانمار میں معزول جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف بدعنوانی کے کچھ مزید مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ایک ہیلی کاپٹر خریدا۔
جمعے کے دن عدالت کو بتایا گیا کہ سوچی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر کرائے پر لیا، اس کی مرمت پر رقوم خرچ کیں اور خرید لیا۔ سوچی کے ساتھی اور سابق صدر ون منٹ پر بھی یہی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
نئے الزامات کیا ہیں؟
میانمار کے اخبار گلوبل نیو لائٹ نے دسمبر میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سوچی اور ون منٹ کو مالیاتی بے ضابطگیوں اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ انہوں نے ملکی وزیر ون میاٹ آیے کو فراہم کردہ ہیلی کاپٹر پر ناجائز طریقے سے رقوم خرچ کی ہیں۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ون میاٹ آیے نے سن دو ہزار انیس تا سن دو ہزار اکیس ایک ہیلی کاپٹر کرائے پر حاصل کیے رکھا۔
اگرچہ انہوں نے اس کا استعمال صرف چوراسی گھنٹے کے لیے کیا تاہم یہ ان کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتا تھا اور سات سو بیس گھنٹے اس کا اضافی کا کرایہ بھی دینا پڑا۔ بتایا گیا ہے یہ وزیر اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ روپوش ہیں۔
پرانے مقدمات میں سزا
میانمار کی ایک عدالت نے پیر کے دن ہی چہتر سالہ سوچی پر تین فوجداری الزامات کے تحت ان کو مجرم قرار دیا تھا۔ ان میں بیرون ممالک سے غیر قانونی طور پر وائرلیس سیٹ والکی ٹاکیز برآمد کرنے کے علاوہ ملکی کورونا قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی بھی شامل ہیں۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
عدالت نے سوچی کو چار سال کی سزائے قید بھی سنائی تھی۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ ہی انہیں ایک مختلف مقدمے میں ڈھائی سال کی قید سنائی گئی تھی۔
موجودہ حالات میں مجموعی طور پر سوچی کو اب تقریبا چھ برس تک سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑے گا، جس کی وجہ سے وہ یا ان کی سیاسی جماعت آئندہ الیکشن میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ فوجی جنتا کی منصوبہ جات کے مطابق میانمار میں اگلے انتخابات سن دو ہزار تئیس میں ہوں گے۔
اشتہار
الزامات کی بھرمار اور عالمی تنقید
چہتر سالہ نوبل امن انعام یافتہ سوچی کو متعدد دیگر الزامات کا سامنا بھی ہے۔ ان میں سول اور فوجداری مقدمات دونوں ہی شامل ہیں۔ ایک مقدمے میں انہیں ملکی خفیہ قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔ اگر ان مقدمات میں عدالت نے انہیں قصوروار پایا تو انہیں سو برس کی سزائے قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔
عالمی برداری نے البتہ سوچی کے خلاف جاری ان تمام قانونی کارروائیوں کی شفافیت اور جانبداریت پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکا اور اقوام متحدہ نے بھی میانمار کی فوجی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکی اقتدار سول حکومت کے سپرد کرتے ہوئے سوچی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے۔
گزشتہ برس فوجی حکومت کی طرف سے سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فوج مخالف ان مظاہروں کے دوران کریک ڈاؤن اور دیگر پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ایک مانیٹرنگ گروپ کے مطابق چودہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ع ب، ب ج (اے ایف پی)
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج