امریکا سمیت عالمی برادری نے میانمار میں فوجی بغاوت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کیا اقدامات کرتی ہے۔
اشتہار
میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت کے مسئلے پر منگل دو فروری کے روز اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں عالمی برادری اس مسئلے پر اپنے رد عمل کے اظہار کے ساتھ ساتھ ممکنہ اقدامات کا اعلان بھی کر سکتی ہے۔
پیر کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی سمیت کئی حکومتی ارکان اور سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر باربرا ووڈورڈ نے اس حوالے سے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس اجلاس میں ممکنہ حد تک تعمیری بحث ہو گی۔ ان کا کہنا تھا، ''ووٹ کے ذریعے عوام نے جس مرضی کا مظاہرہ کیا ہے اس کا احترام کرنے اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کو رہا کرنے کے خیال کے ساتھ ہی کونسل متعدد اقدامات پر غور کرے گی۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا خاص اقدامات کیے جا سکتے ہیں، اس حوالے سے فی الوقت کوئی بحث نہیں ہو رہی۔ ''ہم ان اقدامات پر غور کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں اس مسئلے کے خاتمے کی جانب لے جائیں۔''
اس دوران اقوام متحدہ کے میانمار سے متعلقہ امور کے خصوصی مبصر ٹام اینڈریوز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ عالمی برادری کو ’اسی زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہے جو میانمار کی فوج کو سمجھ میں آتی ہو اور ہمیں تجربے سے پتا چلا ہے کہ انہیں معاشی پابندیوں کی زبان سمجھ آتی ہے‘۔
’’تعلیم سب کے لیے ہے تو روہنگیا کے لیے کیوں نہیں؟‘‘
01:43
ان کا کہنا تھا، ''اس وقت میانمار میں بڑے منظم طریقے سے ان افراد کی تلاش جاری ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، جو انسانی حقوق بہتر کرنے میں لگے تھے۔'' ان کا کہنا تھا کہ فوج نے اپنی کارروائی کے دوران پورے ملک میں مواصلاتی نظام منقطع کر دیا اور ایسے سیاسی رہنماؤں کو تلاش کیا جا رہا ہے جو فوج کی مخالفت کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''ایک طرح سے پورے ملک کو انہوں نے لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ آپ اس طرح پروان چڑھتی جمہوریت کا تختہ نہیں پلٹ سکتے۔ آپ ایک فوجی بغاوت سے اس طرح پوری قوم پر حملہ نہیں کر سکتے۔''
امریکا کا رد عمل
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ روز اس فوجی بغاوت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے میانمار پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے اس فوجی بغاوت کو ’جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جانب گامزن ملک پر براہ راست حملہ‘ قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری پیش رفت کو واپس پلٹنے کی وجہ سے پابندی سے متعلق امریکی قوانین کا نفاذ لازمی ہے اور حکام کی جانب سے اس پر غور کے بعد میانمار کے خلاف جو بھی ضروری ہو گا، کارروائی کی جائے گی۔ ''جہاں کہیں بھی جمہوریت پر حملہ ہو گا، امریکا وہاں جمہوریت کے لیے کھڑا ہو گا۔''
اشتہار
سکیورٹی کونسل میں کس بات کا امکان ہے؟
یہ بات دیکھنے کی ہو گی کہ اس حوالے سے سکیورٹی کونسل میں چین اور روس کا موقف کیا رہے گا۔ سن 2017 میں جب میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کی، جس کے نتیجے میں سات لاکھ سے بھی زیادہ روہنگیا مسلمان جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، اس وقت بھی انہی دو ممالک نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں میانمار کا ساتھ دیا تھا۔
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/M. R.l Hasan
5 تصاویر1 | 5
چین نے تو ابھی تک گزشتہ روز کی فوجی بغاوت کی مذمت بھی نہیں کی اور اپنے ایک بیان میں فریقین پر باہمی اختلافات حل کرنے پر زور دیا ہے۔
میانمار میں کیا ہوا ہے؟
پیر یکم فروری کو ملکی فوج نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ پلٹتے ہوئے اقتدار اپنے قبضے میں لے لیا اور آنگ سان سوچی سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔
فوج نے ملک میں ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی کارروائی کو درست قرار دیا ہے۔ ان انتخابات میں سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
عام انتخابات کے بعد اراکین پارلیمان ایوان کے پہلے اجلاس میں پیر ہی کے روز شریک ہونے والے تھے کہ اس سے محض چند گھنٹے قبل فوج نے بغاوت کر دی اور بہت سے رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ اقوام متحدہ اور کئی دیگر عالمی اداروں نے فوج سے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور سوچی کی گرفتاری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
ص ز / ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔