نفرت انگیزی کے خلاف آواز اٹھانے والے میانمار کے ایک سماجی کارکن اس وقت چونک پڑے جب انہیں اپنے ان باکس میں فیس بک کے بانی اور سربراہ مارک زکربرگ کی ای میل نظر آئی۔
اشتہار
فیس بک کے بانی اور سربراہ مارک زکربرگ واشنگٹن میں نجی کوائف کے ’تحفظ میں ناکامی‘ جیسے امور پر کانگریس کی سماعت میں شامل تھے اور ایسے میں میانمار کے ایک سماجی کارکن ہتائکے ہتائکے آنگ نے فیس بک پر اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس پلیٹ فارم کو نفرت انگیزی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سماجی کارکن نے فیس بک پر بودھ اکثریتی ملک میں روہنگیا کے خلاف نفرت انگیزی کے تناظر میں اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح اس پلیٹ فارم کو زیادہ محفوظ اور مثبت بتایا جا سکتا ہے۔
آپ کے شہر، ڈی ڈبلیو صارفین کی بھیجی گئی تصاویر
ڈی ڈبلیو اردو کے فیس بک صارفین نے ہمیں اپنے شہروں کی تصاویر فیس بک میسنجر پر بھجوائی ہیں۔ آپ بھی دیکھیے ان تصاویر میں خوبصورت نظارے۔
تصویر: Shahzeb Baig
گاؤں کلیال
پاکستان میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے قریب گاؤں کلیال سے یہ تصویر ہمیں معراج ستی نے بھیجی ہے۔
تصویر: Mairaj Satti
گاؤں میں قائم بچیوں کا سکول
معراج ستی کی جانب سے بھیجی گئی اس تصویر میں گاؤں میں قائم بچیوں کا ایک سکول دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Mairaj Satti
مردان
قاضی عارف نےخیبر پختونخوا کے شہر مردان سے ہمیں یہ تصویر بھجوائی۔
تصویر: Qazif Arif
گاؤں پرانا رتیال
یہ تصویر ہمیں فیس بک صارف مدثر راجہ نے بھیجی ہے۔ یہ تصویر پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر گوجر خان کے قریب گاؤں پرانا رتیال کی ہے۔ مدثر راجہ نے یہ تصویر اپنے گھر کی چھت سے لی۔
تصویر: Mudassar Raja
گلگت
اقبال بجر نے ڈی ڈبلیو اردو کو شہر گلگت میں بنائی گئی یہ تصویر بھیجی۔ اس تصویر میں گلگت شہر اور یہاں بہتے دریا کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Iqbal Bijar
اسلام آباد کا چڑیا گھر
اسلام آباد کے چڑیا گھر میں کچھوؤں کی یہ تصویر ہمیں محمود ونی نے بھیجی ہے۔ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں بھی کئی دیگر اقسام کے جانور موجود ہیں۔
تصویر: Mahmood Wani
کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کی یہ تصویر ہمیں شیر علی ملغانی نے بھیجی ہے۔
تصویر: Sher Ali Malghani
کھیوڑہ سالٹ مائنز کے قریب پہاڑی علاقہ
پاکستان کے صوبے پنجاب میں کھیوڑہ سالٹ مائنز کے قریب اس پہاڑی علاقے کی یہ تصویر خاور محمود گل نے بھیجی ہے۔
تصویر: Khawar Mahmood Gul
گاوں بودلہ
یہ تصویر ہمیں شاہ زیب بیگ نے ارسال کی ہے۔ یہ تصویر ہزارہ ڈویژن کے گاوں بودلہ تحصیل ایبٹ آباد میں لی گئی ہے۔
اس سماجی کارکن کے مطابق، فیس بک کے ذریعے نفرت انگیزی کو ہوا دی گئی، جس کے نتیجے میں قریب سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو یہ ملک چھوڑنا پڑا۔ گزشتہ برس میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد سے ملک کی اس اقلتیی آبادی سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس سماجی کارکن اور ایم آئی ڈی او نامی تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہتائکے ہتائکے آنگ کے مطابق، ’’یہ صرف پریشان کن بات نہیں، خوف ناک بات ہے۔ انہیں (فیس بک حکام کو) چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں مزید ذمہ داری قبول کریں۔‘‘
ینگون میں دیگر پانچ تنظیموں کے ہمراہ ہتائکے ہتائکے آنگ نے ایک مراسلہ تحریر کیا اور مارک زوکربرگ کو بھجوایا۔ اس مراسلے میں مسائل کی نشان دہی اور ممکنہ حل تجویز کیا گیا تھا۔
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
6 تصاویر1 | 6
اس مراسلے کے جواب میں خود مارک زکر برگ نے جوابی مراسلہ تحریر کیا، جس میں انہوں نے گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے نفرت انگیزی سے متعلق پوسٹس کو ’رپورٹ‘ کرنے پر انسانی حقوق کے ان کارکنان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ برمی زبان سے واقف اسٹاف میں اضافہ کریں گے، تاکہ اس زبان میں پوسٹ کیے جانے والے مواد پر نگاہ رکھی جائے۔