'میانمار کے پناہ گزینوں کو کھانا اور گھر نہ دیں' بھارت
30 مارچ 2021
میانمار کی فوجی حکومت کی سخت کارروائیوں سے بچنے کے لیے بہت سے لوگ بھارت کی پڑوسی ریاست منی پور میں پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔
اشتہار
بھارت کی شمالی مشرقی ریاست منی پور کی حکومت نے اپنے سرحدی اضلاع کے حکام کو یہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے، " کسی بھی طرح کے کیمپوں کا اہتمام نا کیا جائے اور نہ ہی انہیں کھانے کی اشیاء اور رہائش کے لیے دیگر سہولیات مہیا کی جائیں۔"
بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کی سرحد بھی میانمار سے ملتی ہے جہاں گزشتہ کئی روز کے دوران میانمار سے جان بچا کر بہت سے لوگ پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔ تاہم حکومت نے حکام سے ان پناہ گزینوں کی کی مدد کرنے کے بجائے دراندازی پر قابو پانے کا حکم دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ریاست منی پور پہنچنے والوں میں میانمار کی پارلیمان کے بعض رکن بھی ہیں جو فوج کے خوف سے فرار ہو کر آئے ہیں۔
ریاستی حکومت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اگر کوئی پناہ گزیں بہت زيادہ زخمی ہو تو اس صورت میں، "انسانی بنیادوں پر اسے صرف طبی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔" تاہم حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی بھی شخص سرحد عبور نہ کر سکے۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج
03:55
مودی حکومت کا موقف
چند روز قبل بھارت کی مرکزی حکومت نے بھی میانمار سے متصل میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ منی پور اور اروناچل پردیش جیسی شمال مشرقی ریاستوں کو میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کو بھارت میں داخل نہ ہونے کے لیے کوششیں کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
اس سلسلے میں نئی دہلی میں وزارت داخلہ نے 12 مارچ کو ایک خط تحریر کیا تھا۔ اس میں لکھا تھا، "جیسا کہ معلوم ہے کہ میانمار کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بڑے پمیانے پر وہاں کے لوگوں کے بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں میانمار اور بھارت کی سرحدوں پر تعینات تمام محافظوں کو الرٹ پر رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی شخص غیر قانونی طور پر بھارت میں نہ داخل ہو سکے۔"
اشتہار
اقوام تحدہ کی اپیل نظر انداز
بھارت کے موقف کے برعکس اقوام متحدہ میں میانمار کے نمائندے نے حال ہی میں موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے میانمار سے بھارت پہنچنے والے افراد کو پناہ دینے اور انہیں سائبان مہیا کرنے کی اپیل کی تھی۔
یو این کے نمائندے کا کہنا تھا،’’دونوں ملکوں میں ایک طویل تاریخی رشتہ رہا ہے اور اسے کبھی بھولنا نہیں چاہیے۔" ان کے بیان کے مطابق میانمار کے باشندوں کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
ہلاکتوں کی تعداد 500 سے متجاوز
ادھر میانمار میں بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے منگل کے روز مجموعی طور پر 510 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
شہری ہلاکتوں کی مانیٹرنگ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز' (اے اے پی پی) نے بتایا کہ صرف پیر کے روز میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں کم از کم آٹھ مزید شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ملک بھر میں مجموعی طور پر چودہ افراد ہلاک ہوئے۔
احتجاج کا نیا طریقہ
اس دوران میانمار میں جمہوریت نواز کارکنوں نے ینگون میں فوجی بغاوت کے خلاف 'کوڑا ہڑتال' کے ذریعے احتجاج کا ایک نیا طریقہ کار شروع کیا ہے۔
اس کے تحت کارکنان نے منگل کے روز بطور احتجاج ینگون کی سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر جمع کر دیے ہیں۔ عام شہریوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بطور احتجاج اپنا کوڑا سڑکوں پر ہی پھیکنا شروع کریں۔
’’تعلیم سب کے لیے ہے تو روہنگیا کے لیے کیوں نہیں؟‘‘
01:43
This browser does not support the video element.
باغی گروپوں کی فوج کو دھمکی
ادھر مسلح باغی گروپوں نے بھی فوج سے خونریزی فوراً بند نہ کرنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ تین مسلحہ باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ اگر فوجی جنتا نے فوری طور پر، "خون خرابہ بند نہیں کیا تو پھر وہ مظاہرین کے ساتھ اپنا تعاون شروع کر دیں گے اور فوج کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے گی۔"
عالمی سطح پر مذمت
ملک کی منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو یکم فروری کو اقتدار سے برطرف کر دینے کے بعد سے ہی ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی برادری مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی سخت مذمت کر رہی ہے اور فوجی جنتا پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکا نے پیر کے روز میانمار سے تجارتی معاہدے معطل کر دیے اور جمہوری حکومت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین نے میانمار کے فوجی جرنیلوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی فوجی کارروائی کی مسلسل مذمت کر رہی ہیں۔
صلاح الدین زین/ (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔