میانمار کے چھ ارکان پارلیمان نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے
9 اپریل 2021
ایک بھارتی پولیس افسر نے میانمار کے چھ ارکان پارلیمان کی بھارت میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ چھ سیاستدان بھی ان تقریباً 1800افراد میں شامل ہیں، جو فروری کے اواخر سے میانمار سے بھاگ کر بھا رت پہنچے ہیں۔
اشتہار
میانمار میں فوجی زیادتیوں سے بچنے کے لیے صرف عام لوگ اور پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ وہاں کے ممبران پارلیمان بھی ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ میانمار سے بھاگ کر بھار ت آنے والے بیشتر لوگوں نے شمال مشرقی ریاست میزورم میں پناہ لے رکھی ہے۔
میانمار میں برطرف حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم سی آر پی ایچ کمیٹی کے ایک مشیر نے جمعرات کے روز بتایا کہ میانمار کے کم از کم چھ اراکین پارلیمان نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ لوگ فوجی بغاوت کے بعد فوجی جنتا کے ذریعہ گرفتار کر لیے جانے کے خوف کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سی آر پی ایچ کے مشیر نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا، ”ان دنوں میانمار میں ممبران پارلیمان کافی خطرے میں ہیں۔ ان کے گھروں کی تلاشیاں لی جارہی ہیں اور فوج ان کی تمام نقل وحرکت پر نگاہ رکھ رہی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ جن ممبران پارلیمان نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے ان کا تعلق میانمار کے چن اور سگینگ صوبے سے ہے۔ یہ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی(این ایل ڈی) پارٹی کے رکن ہیں۔ جس نے نومبر سن 2020 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوج نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایک بھارتی پولیس افسر نے بھی میانمار کے چھ اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ فروری کے اواخر کے بعد سے اب تک میانمار سے تقریباً اٹھارہ سو افراد سرحد پار کرکے بھارت میں داخل ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر نے شمال مشرقی ریاست میزورم میں پناہ لے رکھی ہے۔
اشتہار
بھارت کے لیے سفارتی مسئلہ
میانمار کے اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی نئی دہلی کے لیے سفارتی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارت کے میانمار کی فوج کے ساتھ روایتی طور پر قریبی تعلقات رہے ہیں لیکن وہاں حالیہ تشدد کے واقعات کے خلاف بھارت نے عوامی طور پر بیان دیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ میانمار کے اراکین پارلیمان کی بھارت میں موجودگی سے متعلق اس کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے جمعرات کے روز معمول کی آن لائن پریس بریفنگ کے دوران اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا،”ہم تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور میانمار میں جمہوریت کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں۔"
میانمار میں سیاسی قیدیوں کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پالیٹیکل پرزنرز کے مطابق فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک پارلیمان کے ڈیڑھ سو سے زائد اراکین اور سابقہ حکومت کے عہدیداروں کے علاوہ ہزاروں افراد قید میں ہیں۔
فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک چھ سو سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
سی آر پی ایچ کمیٹی کے مشیر نے شمال مشرقی بھات میں کسی نامعلوم مقام سے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو ویڈیو کال کے ذریعہ بتایا، ”این ایل ڈی کے اراکین پارلیمان مجبوراً نہ صرف اپنی رہائش گاہوں سے بلکہ اپنے صوبے سے بھی فرار ہو رہے ہیں۔"
میانمار سے فرار ہو کر میزورم آنے والے ابتدائی لوگوں میں صرف ایسے پولیس اہلکار اور ان کے اہل خانہ تھے جنہوں نے فوج کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن فوجی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد عام شہری بھی وہاں سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لے رہے ہیں۔
ج ا/ (روئٹرز)
.
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔