افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی علاقے میں پاکستانی فوج کی ایک کارروائی کے دوران عسکریت پسندوں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ کے نتیجے میں چار پاکستانی فوجی مارے گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مارے جانے والے چار فوجیوں میں ایک میجر بھی شامل ہے۔
پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق آج بدھ نو اگست کو علی الصبح قبائلی علاقے مالاکنڈ کے قریب اپر دیر میں واقع ایک گھر پر فوج کے ایک چھاپے کے دوران ایک عسکریت پسند نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دوسرا فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا۔ اس بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک انٹیلیجنس افسر بھی شامل ہے۔ فوج کے مطابق اس چھاپے کے دوران ایک جنگجو کو گرفتار بھی کیا گیا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چھاپے کے نتیجے میں ایک ممکنہ بڑے دہشت گردانہ منصوبے کا بھی معلوم ہوا۔ تاہم اس بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تازہ فوجی ہلاکتیں پاکستانی فوج کی طرف سے خیبر کے قبائلی علاقے میں چند ہفتے قبل شروع کیے جانے والے نئے فوجی آپریشن کے بعد ہوئی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغرب میں افغان سرحد کے قریب واقع اس علاقے میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن کا مقصد ایسے جنگجوؤں کو نشانہ بنانا ہے جو پاکستان اور افغانستان دونوں جانب حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس آپریشن کو ’’خیبر فور‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایک دوسرے پر اکثر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ ان دونوں ممالک میں خونریز حملے کرنے والے دہشت گرد زیادہ تر سرحد پار کر کے آتے ہیں اور پھر واپس اپنے ان محفوظ ٹھکانوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔
وادی سوات، دہشت گردی کے بعد سیاحت
برف پوش پہاڑوں، گنگناتے آبشاروں اور بل کھاتی ندیوں کی سر زمین وادی سوات میں سیاحتی سیزن شروع ہوچکا ہے۔ 2009ء میں فوجی آپریشن سے قبل تک یہ وادی طالبان شدت پسندوں کا تختہ مشق بنی رہی۔
تصویر: Adnan Bacha
وادی سوات سیاحت کا گڑھ
برف پوش پہاڑوں، گنگناتے آبشاروں اور بل کھاتی ندیوں کی سر زمین وادی سوات میں سیاحتی سیزن شروع ہوچکا ہے۔ 2009ء میں فوجی آپریشن سے قبل تک یہ وادی طالبان شدت پسندوں کا تختہ مشق بنی رہی۔ یہاں نہ صرف قتل وغارت کا بازار گرم رہا بلکہ سکیورٹی خدشات کے باعث سیاحت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
تصویر: Adnan Bacha
مشرق کا سوئٹزرلینڈ
وادی سوات اپنے فطری حسن اور رعنائی کی وجہ سے مشرق کا سوئٹزر لینڈ کہلاتی ہے۔ سوات پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے 390 کلو میٹر کے فاصلے پر خیبر پختون خوا کے شمال میں واقع ہے۔ سوات کی آبادی کا 80 فی صد حصہ سیاحت سے وابستہ ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
انتہا پسندی کی شکار وادی
وادی سوات کی سیاحت اور معیشت کو گزشتہ 18 برسوں کے دوران انتہا پسندی نے کافی نقصان پہنچايا ہے۔ تحريک نفاذ شريعت محمدی کے سربراه مولانا صوفی محمد اور ان کے حاميوں نے يہاں پر 1996ء میں شريعت کے نفاذ کے لیے آواز اُٹھائی اورمختلف طریقوں سے سیاحوں کو سوات آمد سے روکتے رہے۔
تصویر: Adnan Bacha
خواتین کی تعلیم اور تفریخ پر پابندی
وادی سوات میں 2007ء سے مولانا فضل الله کی انتہاپسندی نے یہاں کی معيشت اور سياحت کوشدید نقصان پہنچایا۔ لوگوں کوقتل کرنا، اسکولوں، سرکاری عمارتوں، پلوں اور سیاحتی مقامات کو بموں سے اڑانا معمول بن گیا۔ خواتین کو گھروں تک محدود کر کے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
معیشت اور ہوٹل انڈسٹری کا نقصان
سوات کی ہوٹلز ایسوسی ایشن اور محکمہ سیاحت کے مطابق سوات میں کشیدگی کے دوران ہوٹل انڈسٹری کو سات ارب جبکہ سوات کی مجموعی معیشت کو 80 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ دہشت گردی سے متاثرہ سوات کی معیشت سنبھلنے لگی تو 2010ء میں سیلاب نے اس وادی میں تاریخی تباہی مچادی۔ ہوٹلز ایسوسی ایشن کے مطابق سیلاب کی وجہ سے131 ہوٹل دریا برد ہوئے اور اس انڈسٹری کو مزید چھ ارب روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا۔
تصویر: Adnan Bacha
فوجی آپریشن کے بعد سیاحوں کی دلچسپی
2009ء میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن اور امن کے قیام کے بعد معمولات زندگی بحال ہوئے تو سوات ایک دفعہ پھر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ صوبائی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے امن میلوں کے انعقاد نے سیاحوں کی توجہ پھر اپنے جانب کھینچ لی اور ملکی سیاحوں سمیت غیر ملکی سیاح بھی کثیر تعداد میں سوات آنے لگے۔
تصویر: Adnan Bacha
سیاحوں کی دلچسپی کا بڑا مرکز
وادی سوات ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے انتہائی دلچسپی کی حامل رہی ہے۔ سوات میں سحر انگیز وادیاں اور دل مول لینے والے درے موجود ہیں۔ کالام، مدین، بحرین، مرغزار، میاندم مہوڈنڈ جھیل سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ سوات میں محکمہ اطلاعات و نشریات کے مطابق 2012ء میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں نے اس وادی کا رُخ کرکے گزشتہ 20 سالہ سیاحتی تاریخ کا ریکارڈ توڑا۔
تصویر: Adnan Bacha
سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کی ضرورت
ٹورسٹ انڈسٹری سے متعلق ماہرین کے مطابق سوات کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے وہاں سڑکوں کی تعمیر، سیاحوں کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مزید ٹورسٹ اسپاٹس کا قیام انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
تباہ حال انفرا سٹرکچر کی بحالی
سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان کے مطابق سوات کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے وہاں کی تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی، لنڈاکے تا کالام ایکسپریس وے کی تعمیر اور سیاحوں کے لیے سہولیات کی فراہمی اس پاکستانی سیاحتی صنعت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے بلکہ ملک کو وسیع زرمبادلہ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
تصویر: Adnan Bacha
’’بے پناہ حسن‘‘
اسلام آباد سے اپنی فیملی کے ساتھ کالام پہنچی ہوئی ایک خاتون مسز مشتاق کے مطابق، ’’سوات کو اللہ نے بے پناہ حسن سے نوازا ہے، یہاں بار بار آنے کو دل کرتا ہے اور میں پوری دنیا کے لوگوں کو دعوت دیتی ہوں کہ سوات آئیں یہاں پر خطرے والی کوئی بات نہیں۔‘‘