1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرا جرم منتخب سول بالا دستی کی کوشش ہے، نواز شریف

خالد حمید فاروقی
10 جولائی 2018

پاکستان کے سابق وزیر آعظم میاں محمد نواز شریف کو برطانیہ میں غیر قانونی ذرائع سے مہنگی جائیداد خریدنے کے الزام میں 10سال کی سزا سنائی گئی۔ ان کے وکلاء کا دعویٰ ہے کہ عدالت نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیں کر سکی۔

Pakistan Nawaz Sharif, Ex-Premierminister
تصویر: Reuters/F. Mahmood

لندن میں پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ میں نے علاقائی امن کے لیے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی کوشش کی نہ کہ انہیں قومی دھارے کی سیاست میں شامل کرنے کی۔‘‘ نواز شریف کا مزید کہنا تھا، ’’علاقائی امن کے لیے حالات اس بات کے متقاضی ہیں سب ممالک آپس میں تعاون کریں۔"

نواز شریف نے کے مطابق انہیں احتساب عدالت کی طرف سے اسی قسم کے فیصلے کی توقع تھی کیونکہ ان کی اہلیہ کی سخت بیماری کے باوجود عدالت سے استثناء کی ان کی درخواستوں کو مسترد کیا جاچکا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے احتساب عدالت کی سو سے زائد پیشیوں کا سامنا کیا اور اسی دوران انہوں نے اپنی سیاسی سر گرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اسی دوران وہ اپنی اہلیہ کی تیمار داری کے لیے متعدد مرتبہ لندن بھی گئے۔

انہوں نے پاکستان کے مقتدر حلقوں سے اپنے تنازعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جرم یہ ہے کی وہ پاکستان میں منتخب سول بالا دستی چاہتے ہیں اور ثابت قدمی سے علاقائی امن، خصوصی طور پر تمام پیچیدگیوں کے باوجود افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ نارمل حالات کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جس سے دہشت گردی، انتہا پسندی کا خاتمہ ہو اورعلاقائی امن اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی ہو جنہیں اقوام متحدہ دہشت گر و قرار دے کر ان کی گرفتار کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔

ہم پاکستان واپسں جا رہے ہیں اور ہم ہر قسم کی سختی اور جدوجہد کے لیئے پر عزم ہیں، مریم نوازتصویر: Reuters/F. Mahmood

نواز شریف نے مزید کہا، ’’ہم بین الاقوامی معاہدوں کے ضامن ہیں عالمی برادری کا ایک ذمہ دار باعزت رکن ہونے کی وجہ سے ہم پر اقوام متحدہ کی جانب سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو پورا نہ کرنے کی صورت میں ہمیں دنیا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا منتخب رہنما ہونے کی صورت میں مجھے پالیسیاں بنانا ہوتی ہیں تاکہ ہمیں بیرونی دنیا سے تعلقات کے سلسلے میں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔  مجھے FATF جیسے معاملات سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ میں نے بہت محنت کر کے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوایا تھا کیونکہ معیشت کی ترقی کے لیے یہ بات ضروری تھی کہ ہماری کریڈٹ لائن بہتر ہو اور ہم عالمی اداروں کو مطمئین رکھیں۔ آج ہم پھر FATF کی گرے لسٹ میں ہیں کیونکہ مجھے اپنے ایجنڈے پر عمل سے روکا گیا جو امن اور خوشحالی کا ایجنڈا ہے۔ ہمارے گرے لسٹ میں جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے FATF کی طرف سے پیش جانے والی تجاویز پر عمل نہیں کیا اور انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا ہے اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف ناکافی کارروائی کی۔‘‘

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا مزید کہنا تھا، ’’آج دہشت گردوں کو سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور وہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں پاکستان مسلم لیگ نون کے مد مقابل لایا جارہا ہے۔"

نواز شریف نے احتساب عدالت سے 10 سال کی سزا سنائے جانے کے فوری بعد اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پاکستان واپس جا کر عدالتوں کا سامنا کرنے کا اعلان کیا۔ احتساب عدالت نے مریم نواز کو بھی سات سال قید کی سزا سنائی ہے۔ میاں نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایون فیلڈ کیس میں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ صفدر نے راولپنڈی سے میں گرفتاری دی۔

مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایون فیلڈ کیس میں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ صفدر نے راولپنڈی سے میں گرفتاری دی۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے پاکستان واپسی کے اعلان نے جہاں ان کے سیاسی مخالفیں کے تمام دعووں کو غلط ثابت کر دیا ہے وہیں بعض مبصرین کے مطابق اس فیصلے نے اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے میں پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں کہ کس طرح ایک پاپولر لیڈر کو جیل میں رکھ کر اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

مریم نواز جو پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کو سیاسی جلسوں میں لانے کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں، ڈوئچے ویلے کے ساتھ نواز شریف کی گفتگو کے دوران وہاں موجود تھیں۔  انہوں نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا، ’’ہم پاکستان واپسں جا رہے ہیں اور ہم ہر قسم کی سختی اور جدوجہد کے لیئے پر عزم ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں