اس سال خواتین کے عالمی دن کی تیاریاں گرچہ مہینوں پہلے سے شروع ہو گئی تھیں تاہم میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر ہونے والی بحث نے ایک نیا فساد کھڑا کر دیا۔
اشتہار
پاکستان میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے حوالے سے بحث جاری ہے اور ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اسی حوالے سے گفتگو کے دوران خاتون سماجی کارکن ماروی سرمد اور ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کے درمیان بد کلامی کے بعد سوشل میڈیا میں مارچ کے حوالے سے ایک طوفان برپا ہے۔
گزشتہ برس کے برخلاف اس بار عورت مارچ کی تیاریاں دو ماہ قبل ہی شروع کردی گئی تھیں اور کراچی پریس کلب کے باہر عورت ترانہ کی ریہرسل کی ویڈیو کو لے کر سوشل میڈیا پر مارچ کے حامی اور مخالف سرگرم ہوچکے تھے۔ تاہم مارچ کے حوالے سے آرگنائزنگ کمیٹی کی اراکین شیما کرمانی اور جسٹس ماجدہ سید رضوی نے مشترکہ نیوز کانفرس کے دوران مارچ کا پروگرام اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارچ کسی مخصوص جنس یا طبقہ کے خلاف نہیں بلکہ خواتین پر ہونے والے جبر، ظلم اور زیادتیوں کے خلاف ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے ہے جسمیں مرد بھی ہماری حمایت میں کھڑے ہیں، جسٹس ماجدہ رضوی کا کہنا تھا کہ ''عورت مارچ گزشتہ تین برس سے ہو رہا ہے جسمیں مرد بھی شریک ہوتے ہیں، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اپنے حقوق کی لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا بنیاد حق ہے، عورت مارچ خواتین کے لیے مسلسل کم ہوتی اسپیس کے لیے آواز بلند کرنے کا نام ہے، ہمارے چند بنیادی مطالبات ہیں، ہم چاھتے ہیں کہ عورت پر تشدد بند ہو، عورت کو معاشی انصاف ملے اور میڈیا عورت کو مظلوم دکھانا بند کرے۔‘‘
تاہم عورت مارچ کے حوالے سے مذہبی حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما قاری عثمان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں سب سے زیادہ حقوق خواتین کو حاصل ہیں شادی کے لیے منظوری سے لے کر بچوں کی تعلیم و تربیت تک عورت کا انتہائی اہم کردار ہے۔
قاری عثمان کے مطابق ''میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعروں کی اسلام اجازت نہیں دیتا، مسلم معاشرے میں اگر کوئی ایسی سوچ رکھے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوگا، وراثت میں حق کی بات اسلام میں موجود ہے، گھریلو تشدد سے لیکر ہر طرح کی زیادتی پر آواز سب سے پہلے دینی حلقے اٹھاتے ہیں لہذا خواتین کے لیے حقوق کے نام پر پھیلائی جانے والی عریانی اور بے حیائی کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے، بیرونی قوتیں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کو فورغ دینا چاہتی ہیں۔‘‘ قاری عثمان نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ انکی جماعت اندرون سندھ غیر مسلم خواتین کے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے میں ملوث ہے۔
تاہم سندھ یونیورسٹی جامشورو سے وابسطہ پروفیسر عرفانہ ملاح کہتی ہیں کہ گزشتہ برس بھی جمیعت علماء اسلام نے سکھر میں عورت مارچ کی عملی مخالفت کی تھی۔ عرفانہ ملاح کے بقول،''اندرون سندھ کاروکاری کے بڑھتے واقعات اور قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے خواتین نہ صرف قتل ہورہی ہیں بلکہ انکے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے، عورتوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر حدف تنقید بنایا جارہا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ اندرون سندھ مذہبی حلقے جبری طور پر ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی تو ان کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے، مگر سندھ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت سامنےنہیں آئی ہے۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
تاہم دو روز قبل ٹی وی ٹاک شو کے دوران سماجی کارکن ماروی سرمد کے خلاف ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کے نازیبا جملوں اور مغلظات کو شہریوں کی اکثریت اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہی۔ شہریوں کے مطابق خلیل الرحمان قمر نے نہ تو اپنے پیشے کی تعزیم کو مقدم رکھا اور نہ ہی مرد برادری کے حوالے سے مشہور وسیع النظری کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ یہ سب مغرب کے 'پبلسٹی اسٹنٹس‘ سے متاثر ہوکر کیا جارہا ہے، کسی 'غیر اشو کو اشوبنانے‘ کے لیے پیسے دے کر مخالفت میں عدالت سے رجوع کروانا، ایسے پیڈ ٹی وی ٹاک شوز کا اہتمام کرانا جس میں ایسے مہمان بلانا جو متنازعہ گفتگو کریں تاکہ توجہ دیگر اہم معاملات سے ہٹ کر غیر اہم معاملات کی طرف مبزول ہوسکے۔
آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شام نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مرد اور عورت مل کر معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کو حقوق دینا پڑیں گے۔
کہاں ہیں عورتیں برابر؟
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2016 میں عورتوں کو برابری کا مقام دینے کے معاملے میں 147 ممالک کی کیا رینکنگ رہی، دیکھتے ہیں اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/F.Belaid
ایک سو چوالیس یعنی آخری نمبر : یمن
تصویر: Getty Images/F.Belaid
نمبر ایک سو تینتالیس: پاکستان
تصویر: picture alliance/Pacific Press Agency/R. S. Hussain