1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرا قلم خاموش نہیں ہو گا، حامد میر

انٹرویو: امتیاز احمد28 مئی 2014

جنگ گروپ نے فوج کے ساتھ مصالحتی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے کیا اس پیشرفت کے نتیجے میں حامد میر کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا آئے گی ؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے حامد میر کا ایک خصوصی انٹرویو کیا۔

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستان کے مضبوط صحافتی گروپ جیو کے ساتھ منسلک مشہور صحافی حامد میر پر انیس اپریل کو قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ حملہ آورں کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ یہ کیس اب تک کہاں پہنچا ہے اور حامد میر کو اس بارے میں کیا اطلاعات ہیں اور یہ کہ کیا حامد میر اپنے مؤقف میں کوئی تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا وہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے حامد میر کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی۔

ڈی ڈبلیو: آپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے ابھی تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ آپ کو کو کیا بتایا جا رہا ہے ؟

حامد میر: مجھ پر انیس اپریل کو حملہ ہوا تھا، تقریبا پانچ ہفتے گزر چکے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ابھی تک کسی کو نہیں پکڑا گیا۔ شروع شروع میں سکیورٹی اداروں نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ وہ حملہ آوروں کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، پھر مجھے کراچی کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ وہ حملہ آوروں کے قریب تو پہنچ چکے ہیں لیکن ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ہاتھ کیوں نہیں ڈال سکتے؟

حامد میر پر انیس اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

ساری صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ میرے چند صحافی دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ شاید کراچی پولیس نے یہ کیس کچھ لوگوں پر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ چیز بے نقاب ہو گئی تھی، اس لیے وہ ہاتھ نہیں ڈال سکے۔ ابھی تک نہ ہی حکومت اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مجھے مزید کچھ بتایا ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا حملہ آور بہت طاقتور ہیں؟ حکومتی عہدیدار یا پولیس والے کیا بتاتے ہیں کہ حملہ آوروں کے لنک کہاں جا ملتے ہیں ؟

حامد میر: دیکھیں معاملہ تو بہت بڑا صاف ہے۔ جس دن ایئر پورٹ کے قریب مجھ پر حملہ ہوا، اس دن سابق صدر پرویز مشرف بھی پاکستان آ رہے تھے۔ کراچی شہر میں ریڈ الرٹ تھا، سکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ جس جگہ مجھ پر حملہ ہوا، وہاں پر ہمیشہ ٹریفک پولیس کا کانسٹیبل ہوتا ہے۔ وہاں پر رینجر کی موبائل بھی ہوتی اور سکیورٹی کیمرے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس دن نہ رینجر تھی نہ کوئی پولیس اہلکار اور نہ ہی کیمرے کام کر رہے تھے۔

سکیورٹی ہائی الرٹ ہو، ایئر پورٹ کا قریبی علاقہ ہو، حملہ آوروں نے سات آٹھ کلومیٹر میرا پیچھا کیا ہو، مجھے آخری گولی آغا خان ہسپتال کے قریب ماری ہو، اور کسی نے ان کو نہ روکا ہو۔ یہ ساری چیزیں جوڈیشل کمیشن بھی پولیس سے پوچھ رہا ہے لیکن پولیس نے اسے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔

میں نے کراچی پولیس کے تفتیشی عمل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا کیونکہ جب میں بیہوش تھا تو کراچی پولیس نے کہا تھا کہ مقدمہ درج کرائیں، میرے گھر والوں نے کہا کہ مجھے ہوش میں آنے دیں، جب ہم مقدمہ درج کروانے گئے تو پولیس خود ہی مقدمہ درج کر چکی تھی۔ تمام حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ضرور ہے، جو حملہ آوروں کو بچانا چاہتا ہے اور انہیں جان بوجھ کر ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔


ڈی ڈبلیو: آپ پر حملے کے فوری بعد اس کا الزام آئی ایس آئی پر عائد کر دیا گیا۔ آج اس حملے کے اتنے دن بعد آپ خود اس الزام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

حامد میر: دیکھیں میں نے تو جیو نیوز کی انتظامیہ کو اپنے اوپر ہونے والے حملے سے کافی دن پہلے ہی تحریری طور بتا دیا تھا کہ آئی ایس آئی میں شامل کچھ لوگ لاپتہ افراد سے متعلق میرے جو پروگرام ہیں، بلوچستان کا جو ایشو ہے، پرویز مشرف سے متعلق جو پروگرام کر رہا ہوں، ان سے خوش نہیں ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں اور مجھ پر حملہ ہوا تو یہی لوگ ذمہ دار ہوں گے۔

میری پوزیشن وہی ہے جو پہلے تھی۔ میرے پاس نہ تو آئی ایس آئی کا کوئی بندہ آیا ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی نے کہا ہے کہ اس میں آئی ایس آئی ملوث نہیں ہے۔ میں تو ابھی تک انتظار کر رہا ہوں کہ مجھے انصاف ملے۔ میں تو متاثرہ شخص ہوں اور مجھے انصاف چاہیے۔


ڈی ڈبلیو: جیو کی طرف سے اب فوج کے ساتھ مفاہمتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آپ ان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

حامد میر: دیکھیں جیو حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد کی جانے والی کوریج پر معافی مانگ رہا ہے۔ جس وقت یہ کوریج ہو رہی تھی، میں تو ہسپتال میں بے ہوش تھا۔ اس سارے معاملے سے تو میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیو اگر معافی مانگ رہا ہے تو یہ جیو کی انتظامیہ کا معاملہ ہے۔ جیو کی طرف سے معافی مانگنے سے مجھے تو انصاف نہیں ملتا، مجھ پر تو حملہ ہوا ہے اور میں انصاف چاہتا ہوں۔

جیو کو معافی ملتی ہے یا نہیں یہ مجھے نہیں پتہ، میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔ میں نے اپنے ادارے کو آئی ایس آئی سے متعلق پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لوگ ریاست کے اندر ہی ایک ریاست بنائے ہوئے ہیں اور مجھ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ جیو نے تو معافی مانگ لی کیونکہ اس پر بہت دباؤ ڈالا گیا، لشکر طیبہ جیسی بہت سی کالعدم تنظیموں نے جیو کے خلاف مظاہرے کیے۔ مجھے نہیں پتہ کہ جیو کی معافی قبول ہوئی ہے کہ نہیں، مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ مجھے چھ گولیاں لگیں اور میں بستر پر پڑا ہوں اور مجھے انصاف نہ مل رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو: وہ حامد میر جو ابھی تک لاپتہ افراد کے علاوہ مختلف موضوعات پر بلا خوف و خطر لکھتا رہا ہے، کیا وہ آئندہ بھی کسی سے ڈرے بغیر لکھتا رہے گا ؟

حامد میر: حملے کے بعد میرے دو سے تین کالم شائع ہوئے ہیں، ان میرا مؤقف نہیں بدلا اور آئندہ بھی میرا مؤقف نہیں بدلے گا۔

مجھے انصاف نہیں مل رہا ، حامد میرتصویر: picture-alliance/dpa


ڈی ڈبلیو:کیا آپ کو اب بھی جان کا خطرہ ہے اور کیا اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں ؟

حامد میر: حملے کے دوسرے یا تیسرے دن بعد مجھے ہسپتال ہی میں کہہ گیا تھا کہ آپ پاکستان چھوڑ کر چلیں جائیں، علاج کے لیے چلیں جائیں لیکن میں نہیں گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ ہسپتال میں بھی مجھے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے مجھے جلدی ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ زخم ابھی تازہ تھے۔ اس کے بعد بھی مجھے دھمکیاں ملی ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے، وہ اتنے بزدل لوگ ہیں کبھی بھی سامنے سے آکر حملہ نہیں کرتے۔

یہ ہمیشہ پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں۔ یہ پیچھے سے کسی بھی وقت دوبارہ بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ مجھے ان کی دھمکیوں کی کوئی پروا نہیں۔ میں حملے کے پانچ ہفتے بعد بھی پاکستان میں بیٹھا ہوا ہوں۔ آپ کو انٹرویو دے رہا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہوں۔ وہ بھی اپنی فطرت سے باز نہیں آئیں گے اور ہم بھی سینہ تان کر اور سر اٹھا کر بات کرنے کی اپنی فطرت سے باز نہیں آئیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں