1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرا ملک حالت جنگ میں ہے: بشار الاسد

27 جون 2012

شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ دوسری جانب دمشق حکومت یہ تاثر بھی دے رہی ہے کہ فوج کے منحرفین کے باوجود شامی فوج مضبوط اور متوازن ہے۔

تصویر: dapd

شامی صدر بشار الاسد نے نئی کابینہ کو حکم دیا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کو پوری طرح کچل دے۔ صدر اسد کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ شامی صدر کا بیان دارالحکومت دمشق کے نواح میں باغی فورسز اور شامی فوج کی منحرف یونٹوں کی شامی فوج کے جدید اسلحے سے لیس ری پبلکن گارڈز کے ساتھ ہونے والی پرزور جھڑپوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ اس دوران ترکی نے اپنے جنگی طیارے کے گرانے کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ وہ اس کا جواب ضرور دے گا۔ شام داخلی اور خارجی سطح پر شدید تناؤ اور کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے۔

عام سویلین آبادی حالت جنگ میں پس کر رہ گئی ہےتصویر: AP

تجزیہ کاروں کے مطابق سولہ مہینوں کی حکومت مخالف تحریک کے مسلسل رہنے کے بعد شامی صدر کا یہ کہنا کہ ان کا ملک حالت جنگ میں ہے، اصل میں مخدوش سلامتی کی صورت حال اور حکومت مخالفین کی بھرپور کارروائیوں کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔ شامی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب جنگ کی صورت حال ہو تو حکومت، وزیر اعظم، تمام وزراء کو اپنی تمام تر توجہ اور پالیسیوں کو جنگ پر مرکوز کر کے فتح کے لیے ہر ممکن کوششیں اور اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہوتے ہیں۔ شامی صدر کے بیان کو سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کیا گیا۔

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس کے رامی عبد الرحمان کا لبنانی دارالحکومت بیروت میں میڈیا کو بتایا کہ دمشق کے نواحی علاقوں قدسیہ اور الحما میں جدید تربیت کے حامل ری پبلکن گارڈز اور باغی لشکریوں اور منحرف فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ علاقے وسطی دمشق سے پانچ میل یا آٹھ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ عبد الرحمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ حکومتی فوج نے دارالحکومت کے انتہائی قریب توپ خانے کا استعمال کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جھڑپوں میں بہت زیادہ شدت کو حکومت نے محسوس کیا ہے۔

فریقین کی جھڑپوں سے عام لوگ مہاجرت پر مجبور ہو گئے ہیںتصویر: Reuters

امریکی صدر باراک اوباما کی رہائش گاہ کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد بہت آہستگی کے ساتھ اپنے ملک پر کنٹرول کھونے کے عمل کا سامنے کر رہے ہیں۔ جے کارنی نے اس موقع پر شامی فوج کے اعلیٰ افسروں اور دیگر فوجیوں کا یونٹوں کو چھوڑ کر ترکی اور اردن میں منحرفین کے دستوں میں شامل ہونے کا بھی حوالہ دیا۔ کارنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر بشار الاسد شدید مایوس کے عالم میں اقتدار کے ساتھ ہر قیمت پر جڑے رہنے کے لیے باغیوں اور مخالفین پر فضائی فوج کے حملوں کے علاوہ خفیہ فوج شبیحہ کے دستوں کا بے دریغ استعمال بھی عمل میں لائے ہوئے ہیں۔ اس وقت دمشق کے نواح میں شروع ہونے والی جھڑپوں کو بھی عالمی طاقتیں خاص اہمیت دے رہی ہیں۔

ah/sks (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں