میرا مواخذہ کیا گیا تو امریکی معیشت بیٹھ جائے گی، ٹرمپ
23 اگست 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ان کا مواخذہ ہوا تو امریکی اقتصادیات تباہ ہو سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق موجودہ قانونی پیچیدگیوں کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر ان کا مواخذہ کیا گیا تو امریکی معیشت بیٹھ سکتی ہے۔ فوکس نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے مزید کہا، ’’میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر میرا مواخذہ ہوا تو میرے خیال میں مارکیٹ کریش کر جائے گی۔ میرے خیال میں سب غریب ہو جائیں گے۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ مواخذے سے صورتحال مزید خراب ہی ہو گی۔ ان کے مطابق، ’’مجھے نہیں معلوم کہ آپ کسی ایسے شخص کا مواخذہ کریں، جس نے زبردست کام کیے ہیں۔‘‘
امریکی صدر نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے، جب ان کے سابق ساتھی مائیکل کوہن نے وفاقی عدالت کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ کے کہنے پر ایک خاتون کو رقوم فراہم کی تھیں تاکہ وہ گزشتہ برس نومبر کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ٹرمپ کے ساتھ اپنے مبینہ تعلق کو عام نہ کرے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس خاتون کو یہ رقوم انتخابی مہم کے فنڈز سے نہیں دی گئی تھیں بلکہ انہوں نے یہ اپنی جیب سے ادا کی تھیں۔ ٹڑمپ کے مطابق کوہن کے یہ بیانات دراصل صرف اس لیے ہیں کہ انہیں کم سزا ملے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قانونی گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ایسے خطرے ہیں کہ ان کی صدارتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ تاہم ان کے مطابق ایسے امکانات کم ہی ہیں کہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کا مواخذہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم نوسامین لاء فرم سے وابستہ وکیل کیٹ بیلنسکی کا کہنا ہے کہ فوری طور پر مواخذے کا خدشہ نہیں لیکن ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کے لیے کچھ قانونی مسائل تو پیدا ہو چکے ہیں۔
کیٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف انہی الزامات کے تحت وفاقی الیکشن کمیشن کو ایک شکایت درج کرا دی جائے گی۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔