’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘
8 ستمبر 2010جرمن صوبے ہیسے کی جانب سے ہر سال امن کے بین الاقوامی ایوارڈ دینےکے لئے شخصیت کا انتخاب ہیسے کے ایک سابق وزیراعلٰی البیرٹ اوس والڈ کی فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ فلسطینی باشندے اسمٰعیل خاطب 22تاریخ کویہ امن انعام ہیسے کے دارالحکومت ویزباڈن میں وصول کریں گے۔
بات 2005ء کی ہے، جب مغربی اردن میں اسمعٰیل خاطب کا 12سالہ بیٹا احمد اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ بعد ازاں اسمعٰیل نے اپنے بیٹے کی موت کا بدلہ تو لیا لیکن اس انداز میں کہ اس کا یہ عمل ’امر‘ ہوگیا۔ اس نے اپنے بیٹے کے اعضاء اسرائیلی بچوں کو عطیے کے طور پر دینے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اسمعٰیل نے نفرتوں کے سائے میں رہنے والے لوگوں کے درمیان انسانیت دوستی کی ایک ایسی مثال قائم کرنے کی کوشش کی، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اب بھی کوئی ایسا دن اور ساعت نہیں گزرتی، جب اسمعٰیل اپنے بیٹے کا تذکرہ کرتے ہوئے آب دیدہ نہ ہو جاتا ہو۔
اسرائیلی فوجیوں نے جنین میں ایک کارروائی کے دوران فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کر دی تھی۔ اس واقعے کو بعد میں ایک فلم میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ اگر ’’دی ہارٹ فار جینین‘‘ نامی یہ فلم نہ بنتی تو احمد کے قتل اور اس کے والدین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس مثالی اقدام کو فراموش کر دیا گیا ہوتا۔ احمد جس وقت گھر سے نکلا تھا، اُس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی ایک گن تھی۔ اسے سر اور سینے میں گولی ماری گئی تھی۔ اس کے بعد اسے اس کے والد کے ساتھ حائفہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔’’ہسپتال پہنچنے کے بعد احمد کے اعضاء بچوں کو عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جانے بغیرکہ کس کا تعلق کہاں سے ہے۔ یہ سوچے بغیرکہ یہ بچہ یہودی ہے یا مسلمان یا فلسطینی ہے یا اس کا تعلق اسرائیل سے یا کسی اور ملک، خطے یا فرقے سے ہے۔
احمد کے اعضاء کی پیوندکاری پانچ اسرائیلی بچوں کے جسموں میں کر دی گئی اور یہ بچے آج احمد کی جان کی قربانی کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔ احمد کا دل ایک انتہائی قدامات پسند یہودی گھرانے کی بچی کے جسم میں دھڑک رہا ہے۔ 2005ء میں اسمٰعیل خاطب کے اس فیصلے کی اسرائیل میں بہت زیادہ پذیرائی کی گئی۔ اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ بہت سے افراد انتہائی خوش ہوتے، اگر وہ اپنے لخت جگر کی موت کا کسی اور انداز میں بدلہ لیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’احمد ہر وقت میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا ذکر کرنے سے میں اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور محسوس کرتا ہوں۔ میں بچوں کے حقوق پر بات کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے، جس میں بچے بہتر انداز میں زندگی گزار سکیں۔‘‘
اسمٰعیل خاطب مزید کہتے ہیں کہ جب بھی وہ اُن بچوں کو دیکھتے ہیں، جوآج احمد کے اعضاء کی وجہ سے زندہ ہیں، تو انہیں اِن بچوں میں اپنا ’احمد‘ نظر آتا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی