1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا کوئی مستقبل نہیں‘، صدام کے ساتھی طارق عزیز کا انتقال

امجد علی5 جون 2015

عراق کے سابق وزیر خارجہ طارق عزیز کا اُناسی برس کی عمر میں ایک ہسپتال میں انتقال ہو گیا ہے۔ وہ سابق عراقی صدر صدام حسین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور قید کے دوران طویل عرصے سے بیمار چلے آ رہے تھے۔

Früherer irakischer Premier Tareq Aziz
عراق کے سابق وزیر خارجہ طارق عزیز کی گیارہ اکتوبر 2002ء کو بیروت کے ایک دورے کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: C. Kealy/Getty Images

اس سے پہلے بتایا گیا تھا کہ اُن کا انتقال جیل ہی میں ہو گیا ہے۔ عراقی حکام نے طارق عزیز کے انتقال کی خبر جمعے کے روز جاری کی ہے۔ طارق عزیز نے اپریل 2003ء میں خود کو صدام حسین کا تختہ الٹنے والی امریکی انتظامیہ کے حوالے کر دیا تھا۔ گرفتاری کے سات سال بعد اکتوبر 2010ء میں اُنہیں صدام حسین کی حکومت کے دوران شیعہ جماعتوں کو عتاب کا نشانہ بنانے کی پاداش میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ قید کے دوران ہی وہ ایک مدت سے علالت کا شکار چلے آ رہے تھے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق شاید اسی لیے اُن کی سزائے موت پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا تھا کہ وہ صدام حسین کے قریبی ساتھیوں میں سے واحد غیر مسلم تھے۔ صدام کے دیگر سبھی ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جب طارق عزیز کو سزائے موت سنائی گئی تو ویٹی کن کی جانب سے اُن کے لیے ایک مسیحی ہونے کے باعث رحم کی اپیل کی گئی تھی۔ تب عراقی صدر جلال طالبانی نے طارق عزیز کی عمر اور صحت کا حوالہ دیتے ہوئے موت کے پروانے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ڈاکٹر سعدی المجید اُس جیل میں شعبہٴ صحت کے سربراہ تھے، جہاں طارق عزیز کو رکھا گیا تھا۔ روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے سابق عراقی وزیر خارجہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا:’’طارق عزیز دل کے ایک شدید دورے کے بعد الناصریہ ایجوکیشنل کمپلیکس میں پہنچے تھے۔ اُنہیں دل کے کچھ ایسے مسائل لاحق تھے کہ جن کے نتیجے میں وہ جمعے کو سہ پہر تین بجے انتقال کر گئے۔‘‘ ایک اور عراقی ذریعے نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ طارق عزیز کا انتقال الناصریہ نامی شہر کے ایک ہسپتال میں ہوا۔ یہ شہر دارالحکومت بغداد سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ طارق عزیز بڑی روانی کے ساتھ انگریزی زبان بول لیتے تھے اور اُنہوں نے 1991ء میں عراقی افواج کو کویت سے باہر نکالنے کے لیے کی جانے والی خلیجی جنگ کے بعد کے برسوں میں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے ساتھ ہتھیاروں کے معائنوں کے طویل تنازعے کے دوران سفارتی سطح پر نمایاں کردار ادا کیا۔

طارق عزیز 1936ء میں شمالی عراق میں موصل کے قریب تلکیف کے مقام پر ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ صدام حسین کے ساتھ اُن کی وابستگی بہت پہلے یعنی 1950ء کے عشرے میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ تب یہ دونوں اُس دور کی کالعدم بعث پارٹی میں شامل تھے، جو برطانیہ نواز بادشاہت کے خاتمے کے لیے سرگرمِ عمل تھی۔

منگل گیارہ فروری 2003ء کی اس تصویر میں وزیر خارجہ طارق عزیز صدام حسین کے ساتھ بائیں سے دوسرے نمبر پر پیچھے کھڑے نظر آ رہے ہیںتصویر: dapd

طارق عزیز نے صدام حکومت کا تختہ الٹے جانے کے دو ہفتے بعد ہی خود کو امریکی انتظامیہ کے حوالے کر دیا تھا۔ تب وہ امریکا کو انتہائی مطلوب عراقی حکام کی فہرست میں تینتالیس ویں نمبر تھے۔ ستمبر 2010ء میں اُنہوں نے جیل ہی سے ایک انٹرویو میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا:’’میرا کوئی مستقبل نہیں ہے، کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میں بیمار ہوں اور تھک چکا ہوں لیکن عراق اور عراقیوں کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔‘‘

طارق عزیز کی صدام حسین کے ساتھ وابستگی اتنی گہری تھی کہ اُنہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام بھی صدام رکھا۔ طارق عزیز کی اہلیہ وائلٹ اور دونوں بیٹے زیاد اور صدام آج کل اردن میں رہائش پذیر ہیں۔ زیاد عزیز نے بتایا کہ اُس کے والد ایک طویل عرصے سے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے اور پورا کنبہ ایک مدت سے یہ کوشش کر رہا تھا کہ طارق عزیز کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں