1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرس وائرس کی افزائش عربستان کے اونٹوں میں

عابد حسین30 نومبر 2013

تازہ ریسرچ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعض عرب ملکوں میں سانس کی بیماری میرس (MERS) کی وجہ سے ہلاک ہونے افراد میں پائے جانے والے وائرس نے اونٹوں میں افزائش پائی ہے۔

تصویر: Getty Images

مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سینڈروم (MERS) سے عرب دنیا میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور اب تک پونے دو سو کے قریب افراد اس مرض کے وائرس کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہٴ صحت اِس بیماری کے اسباب جاننے کی کوششوں میں ہے اور تاحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرس وائرس کی ابتدا کس مقام سے ہوئی تھی۔

اس تحقیقی عمل میں تازہ پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ سانس کی بیماری میرس کے وائرس کی موجودگی بعض اونٹوں میں پائی گئی ہے۔ ریسرچرز کا خیال ہے کہ اونٹوں سے یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہونے کے امکان کو اب رد نہیں کیا جا سکتا۔

میرس بیماری کے وائرس کی دریافت اونٹ کی کوہان میں پائی گئی ہےتصویر: AP

طبی محققین کے مطابق میرس بیماری کے وائرس کی دریافت اونٹ کی کوہان میں پائی گئی ہے۔ کوہان کو صحرائی جہاز اونٹ کا ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے اور اِس باعث وہ کئی کئی ایام بغیر پانی کے صحرا میں سفر کرتا رہتا ہے۔ میرس مرض کا وائرس، ایشیا اور پھر بعد میں یورپی اور امریکی شہروں میں پھوٹنے والی سانس کی بیماری سارس کے کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے۔ سارس کی وباء سن 2003 میں مشرق بعید کے ملکوں میں پھیلی تھی۔ اونٹوں میں میرس وائرس کی موجودگی کی تصدیق خلیجی ریاست قطر کے محکمہٴ صحت نے کی ہے۔

قطر کے قومی ادارے سپریم کونسل برائے صحت کے مطابق اونٹوں کے جو نمونے اکھٹے کیے جا رہے ہیں، اُن میں ایک درجن سے زائد اونٹوں کے گلے میرس وائرس سے متاثر تھے۔ مشرق وسطیٰ کے طبی سائنسدان اور عالمی ادارہٴ صحت کے ریسرچرز مشترکہ طور اِس کھوج میں ہیں کہ اُس مقام کی نشاندہی کی جا سکے جہاں سے میرس وائرس نے سب سے پہلے جنم لیا تھا۔

جن افراد کو میرس کا مرض لاحق ہوا تھا، وہ یقینی طور پر اونٹ کا گوشت یا دودھ پینے کے علاوہ اُن پر سفر یا اُن کی پرورش میں شریک رہے ہوں گےتصویر: AP

رواں برس ستمبر میں برطانوی سائنسدان بھی میرس وائرس کے جینیٹک تجزیے میں مصروف تھے۔ انہی سائنسدانوں نے اس کی تصدیق کی تھی کہ اونٹوں سے انسانوں میں امکاناً منتقل ہونے والا میرس وائرس یقینی طور پر سارس بیماری کے کورونا وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ سارس وائرس کے موجودگی چمگادڑوں میں بھی پائی گئی تھی۔ قطر کے محکمہٴ صحت کے بیان پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان گریگری ہاٹل کا کہنا ہے کہ تاحال ریسرچ کا عمل نامکمل ہے اور پوری تحقیق اُس مقام پر نہیں پہنچی کہ اس کا تعین کر دیا جائے کہ انسانوں میں میرس وائرس کی منتقلی اونٹوں سے ممکن ہوئی ہے۔

دوسری جانب ہالینڈ کے ایراسمس میڈیکل سینٹر کے وائرولوجی کے پروفیسر آب اوسٹرہاؤس (Ab Osterhaus) کا کہنا ہے کہ میرس وائرس کی اونٹ سے کسی بھی انسان میں منتقلی کے کلینکل ٹیسٹ جاری ہیں۔ پروفیسر اوسٹرہاؤس قطر کے محکمہ صحت کے ساتھ مل کر تحقیقی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہالینڈ کے سائنسدانوں نے رواں برس اگست میں کہا تھا کہ اُن کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ میرس وائرس ایک کوہان والے اونٹوں میں افزائش پانے کے بعد انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ ان کے مطابق جن افراد کو میرس کا مرض لاحق ہوا تھا، وہ یقینی طور پر متاثرہ اونٹوں کا گوشت یا دودھ پینے کے علاوہ اُن پر سفر یا اُن کی پرورش میں شریک رہے ہوں گے۔

میرس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی نشاندہی کا عمل جاری ہے۔ اُدھر سعودی عرب میں بھی میرس وائرس سے متاثرہ ایک اونٹ کے مالک میں اس مرض کی علامات کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اسی طرح اردن کے ایک جوڑے میں میرس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ میرس وائرس کی موجودگی سعودی عرب، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات، عُمان، تیونس، فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی اور برطانیہ میں بھی پائی گئی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں