جرمن الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں میرکل اور مارٹن شلس کے مابین ہونے والے ٹی وی مباحثے میں میرکل کا پلڑا بھاری رہا۔ اتوار کی رات دونوں سیاستدانوں نے اہم داخلی اور خارجی معاملات پر اپنی اپنی پارٹیوں کا موقف بیان کیا۔
اشتہار
تین ستمبر بروز اتوار کی رات کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی سربراہ انگیلا میرکل اور مرکزی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رہنما مارٹن شلس نے ٹی وی مباحثے میں شرکت کی، جس کا مقصد ووٹرز تک اپنا اپنا انتخابی منشور پہنچانا اور ان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ان دونوں اہم پارٹیوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ مارٹن شلس پہلی مرتبہ چانسلر کے امیدوار ہیں جبکہ میرکل چوتھی مرتبہ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کی خاطر فعال ہیں۔
ناظرین کی طرف سے جمع کردہ رائے سے معلوم ہوا ہے کہ نوّے منٹ دورانیے کے اس ٹی وی مباحثے کے دوران قدامت پسند سیاستدان انگیلا میرکل اپنے حریف سیاستدان مارٹن شلس پر حاوی نظر آئیں۔ جرمن براڈ کاسٹر اے آر ڈی کے ایک جائزے کے مطابق انچاس فیصد ناظرین نے کہا کہ اس مباحثے کے دوران میرکل زیادہ پراعتماد تھیں جبکہ انتیس فیصد ناظرین نے شلس کو زیادہ بہتر پایا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس مباحثے میں کن موضوعات پر گفتگو ہوئی اور ان دونوں رہنماؤں نے کس طرح اپنا اپنا موقف بیان کیا۔
مہاجرت
مہاجرین کا حالیہ بحران اس ٹی وی مباحثے کا نہ صرف پہلا بلکہ مرکزی موضوع رہا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے موقف کا دفاع کیا کہ مہاجرین کی خاطر ملکی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ درست تھا۔ اس معاملے پر شلس نے میرکل سے اتفاق کیا لیکن تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر بہتر طریقہ کار اپنایا جا سکتا تھا۔
جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟
01:27
مارٹن شلس نے یہ بھی کہا کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر میرکل دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ایک منظم حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمسایہ یورپی ممالک کو ساتھ ملایا جاتا تو اس بحران سے نمٹنے میں زیادہ بہتر مدد مل سکتی تھی۔
شلس نے کہا کہ یورپی یونین کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک بھی مہاجرین کی آباد کاری میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے۔
یہ امر اہم ہے کہ کئی یورپی ممالک میرکل کی مہاجر پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے ممالک میں مہاجرین کی آباد کاری کو مسترد کر رکھا ہے۔ میرکل نے شلس کی اس تنقید کے جواب میں کہا کہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان اس تناظر میں تعاون کرنے سے بالکل انکار کر چکے ہیں، ’’ہمیں ایک ڈرامائی صورتحال کا سامنا ہے۔‘‘ ساتھ ہی میرکل نے کہا کہ کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور انہوں نے اس بحران سے نمٹنے کی خاطر درست فیصلہ کیا ہے۔
چانسلر شپ کے دونوں امیدواروں نے اس بات پر بھی اختلاف کیا کہ جرمنی میں مستقبل کی مہاجرین کی پالیسی کیا ہونا چاہیے۔ شلس نے زور دیا کہ امیگریشن پر یورپی سطح کی پالیسی بنانا چاہیے جبکہ میرکل نے اصرار کیا کہ وہ ہنر مندی پر مبنی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس سے نہ صرف مہاجر اپنے ہنر اور قابلیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقید ہوں بلکہ اقتصادی سطح پر جرمنی کو بھی فائدہ ہو۔
ترکی
ترکی اور جرمنی کے مابین کشیدہ تعلقات بھی اس ٹی وی مباحثے میں اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انگیلا میرکل نے کہا کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر جاری مذاکراتی سلسلے کو ختم کر دینے کی حامی ہیں۔ انہوں نے انتہائی واضح الفاظ میں کہا کہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن ملک نہیں بننا چاہیے۔
مارٹن شلس نے بھی کہا کہ اگر وہ جرمن چانسلر بننے میں کامیاب ہوئے تو وہ اس تناظر میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین جاری مذاکرات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ عرصے میں جرمنی اور ترکی کے مابین کئی اختلافات ابھر کے سامنے آ چکے ہیں، جس کے باعث ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں سرد مہری نمایاں ہو چکی ہے۔
شمالی کوریا اور ڈونلڈ ٹرمپ
مہاجرت اور ترکی کے بعد اس ٹی مباحثے کا تیسرا اہم موضوع شمالی کوریا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہے۔ مارٹن شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ناقابل پیش گوئی‘ شخصیت کے باعث وہ شمالی کوریا کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔
جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا کہتے ہیں؟
دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، سیاسی رہنماؤں کے عوام سے اُن کی حالت بہتر بنانے کے وعدوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ دیکھیے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
کرسچین ڈیموکریٹک یونین
تین بار چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو بیس ملین یورو خرچ کر کے جرمنی بھر میں اب تک قریب بائیس ہزار پوسٹر لگا چکی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ایک ایسے جرمنی کے لیے جہاں ہم اچھی طرح اور شوق سے رہ سکیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی
جرمنی کی ایک اہم اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی نے اپنے انتخابی پوسٹر پر چانسلرشپ کے امیدوار مارٹن شُلس کی تصویر لگائی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’مستقبل کو نئے تصورات کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسے شخص کی بھی، جو ان پر عمل درآمد کر سکے۔‘‘
فری ڈیموکریٹک پارٹی
ترقی پسندوں کی لبرل جماعت ایف ڈی پی کی الیکشن مہم پر پانچ ملین یورو خرچ کیے گئے ہیں۔ پارٹی سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کی تصویر والے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’بے صبری بھی ایک خوبی ہے۔‘‘
گرین پارٹی
ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی کے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ماحول سب کچھ نہیں ہے لیکن ماحول کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
متبادل برائے جرمنی
جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی کے اس انتخابی پوسٹر پر ایک حاملہ عورت کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے، ’’نئے جرمن؟ ہم خود پیدا کریں گے۔ جرمنی، ہمت کرو!‘‘
لیفٹ پارٹی یا ’دی لِنکے‘
اس جرمن سیاسی جماعت نے اپنے اس پوسٹر کے لیے مختلف خطِ تحریر استعمال کیے ہیں۔ اس پوسٹر پر مختلف رنگوں میں لکھا ہے، ’’واضح طور پر دائیں بازو کی نفرت انگیزی کے خلاف، دی لِنکے‘‘
6 تصاویر1 | 6
اس موقع پر میرکل نے ایک عالمی رہنما کے طور پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ پیونگ یانگ کی طرف سے خطرات کے تناظر میں انہوں نے اتوار کے دن ہی فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے گفتگو کی اور جلد ہی وہ ٹرمپ کے علاوہ روسی، چینی، جاپانی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں سے بھی مذاکرات کریں گی۔
انگیلا میرکل نے یہ بھی کہا کہ وہ کئی معاملات اور پالیسیوں پر امریکی صدر ٹرمپ سے اختلاف رکھتی ہیں لیکن شمالی کوریا کا مسئلہ ایسا ہے، جو امریکی تعاون کے بغیر حل کرنا مشکل ہو گا۔ تاہم انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کی خاطر صرف پرامن اور سفارتی حل کی وکالت کرتی ہیں۔
سماجی انصاف
پارلیمانی الیکشن سے قبل ہونے والے اس ٹی مباحثے میں سوشل جسٹس کے معاملے پر میرکل اور شلس کے موقف میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا تاہم شلس نے خود کو سماجی انصاف کے حوالے سے ایک ماہر دکھانے کی کوشش ضرور کی۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک خوشحال ملک ہے لیکن معاشرے کے کئی طبقوں میں جیسا کہ تنہا والد یا والدہ، ریٹائرڈ افراد اور طویل عرصے سے بے روزگار افراد بہت سے مراعات سے محروم ہیں۔
تاہم میرکل نے جواب میں اپنے دور اقتدار میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ریکارڈ کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کے بارہ سالہ دور حکومت میں بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہوئی ہے۔ انہوں نے ایسے دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر ستر برس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرکل نے کہا کہ ان کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔
ڈیزل گیٹ اسکینڈل پر بھی دونوں رہنماؤں میں کوئی زیادہ فرق نہ دیکھا گیا۔ میرکل اور شلس نے مستقبل میں ڈیزل گاڑیوں پر ممکنہ پابندی کو خارج ازامکان قرار دے دیا۔ میرکل نے کہا کہ جرمنی میں آٹو انڈسٹری سے بہت سی لوگوں کی ملازمتیں جڑی ہوئی ہیں۔
تاہم جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی گاڑيوں سے نکلنے والے دھوئيں کی درست مقدار چھپانے سے متعلق اسکينڈل پر میرکل نے کہا کہ اس دھوکا دہی میں ملوث متعلقہ حکام کے خلاف مناسب کارروائی ضرور کی جانا چاہیے۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔