لہجہ نرم مگر موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ سے ملاقات توقعات سے بہتر رہی۔ تاہم اس ملاقات کا کوئی حاصل نہ حصول تھا۔ دونوں کے مابین بنیادی اختلافات پہلے کی طرح برقرار رہے۔
اشتہار
نہ تو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے، نہ تجارتی جنگ اور نہ ہی نیٹو کے اخراجات میں تعاون بڑھانے کے معاملے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے مابین کسی قسم کا کوئی اتفاق رائے سامنے آیا۔ تاہم اس موقع پر میرکل نے شمالی اور جنوبی کوریا کو قریب لانے کی خاطر ٹرمپ کی کوششوں کی تعریف کی۔
میرکل کے بقول یورپی یونین اور جرمنی کو امریکا کے ساتھ منصفانہ تجارتی شرائط طے کرنے کی خاطر بات چیت جاری رکھنی ہو گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جرمنی پہلے ہی امریکا کے ساتھ اپنی تجارت سرگرمیوں میں کمی کر چکا ہے۔
ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں تجارتی شعبے میں یورپی سر پلس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ کے بقول یہ اضافہ سالانہ 150 ارب بنتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کوشش ہے کہ امریکی مصنوعات کو یورپ برآمد کرنے کے حوالے سے مشکلات کو کم کیا جائے۔
جرمن چانسلر نے ٹرمپ کی جانب سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے یورپی ارکان پر تنقید کو جائز قرار دیا۔ میرکل کے بقول برلن حکومت 2019ء سے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 1.3فیصد دفاع پر خرچ کرے گی۔ امریکا کی کوشش رہی ہے کہ نیٹو کی رکن ریاستوں میں سے ہر ملک دفاع کے لیے اپنی اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد حصہ خرچ کرے۔ لیکن 2014ء میں اتفاق کے باوجود ابھی تک صرف چند رکن ممالک نے ہی اس بارے میں اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔
میرکل نے ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں استحکام کی خاطر مزید اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں، ’’ایران کی جوہری سرگرمیوں کو کم کرنے اور ان کی بہتر نگرانی کے حوالے سے یہ معاہدہ پہلا قدم ہے‘‘۔ اس موقع پر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پر 2015ء میں طے پانے والے اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ٹرمپ نے امریکا اور جرمنی کے باہمی روابط کو سراہا۔ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا، ’’ہمارے تعلقات ہمیشہ سے ہی شاندار رہے ہیں تاہم کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘ انہوں نے میرکل کو ایک ’غیر معمولی خاتون‘ قرار دیا۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں ٹرمپ میرکل کے ساتھ زیادہ گرم جوشی کے ساتھ ملے۔ تاہم اس گرم جوشی کے باوجود متعدد عالمی مسائل میں دونوں ممالک کے موقف میں کوئی واضح قربت دکھائی نہیں دی۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔