میرکل جیسی پالیسی ہوتی تو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا، اوربان
27 جولائی 2018
ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان نے کہا ہے کہ اب مہاجرت کی پالیسی پر نئی سوچ کے حامل ایک نئے یورپی کمیشن کی ضرورت ہے۔ اوربان کے مطابق اگر وہ مہاجرت پر میرکل جیسی پالیسی رکھتے تو بر طرف کر دیے جاتے۔
اشتہار
اوربان نے جو مہاجرت پر یورپی یونین کی پالیسی کے سخت ناقد ہیں، سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اگلا یورپی کمیشن اُن ممالک کو سزا نہیں دے گا جو اپنی سرحدوں کو مہاجرین سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
یورپی کمیشن نے رواں ماہ کے آغاز سے ہنگری کے ساتھ یورپی یونین کے مہاجرت کی پالیسی کے حوالے سے باقاعدہ قانونی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ کمیشن نے ہنگری کے ایک قانون کو غیر قانونی قرار دیا ہے جس کی رُو سے بوڈا پیسٹ حکومت مہاجرین کی مدد کرنے کی سرگرمیوں کو مجرمانہ قرار دیتی ہے۔
یورپی کمیشن اس معاملے کو یورپی عالمی عدالت میں لے گیا ہے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ کمیشن کا فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل نہیں کونکہ اس کا مینڈیٹ آئندہ سال ختم ہونے والا ہے۔
آج جمعے کے روز جرمن اخبار کو دیے ایک انٹرویو میں اوربان نے کہا کہ اگر وہ مہاجرت پر چانسلر میرکل کی طرح کی پالیسی کے حامل ہوتے تو ملازمت سے برطرف کر دیے گئے ہوتے۔
بلڈ اخبار سے بات کرتے ہوئے اوربان کا کہنا تھا،’’ اگر میں نے آپ کی چانسلر میرکل کی طرح سے مہاجرین کے حوالے سے پالیسی بنائی ہوتی تو میرے ملک کے لوگوں نے اسی دن مجھے دفتر سے باہر نکال دیا ہوتا۔‘‘
ابھی حال ہی میں ہنگری نے مہاجرت پر نئے عالمی معاہدے کو دنیا کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا تھا۔
اوربان یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں کوٹے کے مطابق مہاجرین کی تقسیم کے بھی سخت خلاف ہیں۔
ص ح / ع ا / ڈی پی اے
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘