چھبیس ستمبر کو جرمن شہری اپنے ملک کی نئی پارلیمان کا انتخاب کریں گے لیکن وفاقی حکومت کا قیام اور نئے چانسلر کے منتخب ہونے میں وقت لگے گا۔
اشتہار
چار سال قبل جرمن انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کو قریب چھ ماہ کا عرصہ لگا تھا۔ مختلف سیاسی جماعتیں، جن کی پالیسیاں اور ترجیحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، انہیں نئے حکومتی پلان پر متفق ہونے کے لیے مذاکراتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ عمل کافی طویل ہوجاتا ہے اور ایسی صورت میں ملک کی سابقہ حکومت ایک عبوری حکومت کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس مرتبہ بھی توقع ہے کہ حکومتی اتحاد قائم کرنے کے عمل میں وقت لگے گا۔ دو جماعتوں پر مشتمل اتحاد اکثریتی ووٹ حاصل کرتا نظر نہیں آرہا اور ایسا لگ رہا ہے کہ تین مختلف سیاسی جماعتیں حکومتی اتحاد بنائیں گی۔
سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے پارٹی ممبران کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے قواعد طے کرنا ہوتے ہیں۔ پھر وہ میڈیا سے چھپنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔
04:07
نو منتخب پارلیمان کے کام کا آغاز
حکومتی اتحاد قائم کرنے کے مذاکرات کا عمل چاہے جاری ہو، نو منتخب پارلیمان اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ جرمن آئین کے مطابق جرمنی میں نو منتخب پارلیمان کو انتخابات کے بعد تیس روز کے اندر اندر کام شروع کرنا ہوتا ہے۔
اگر جرمن پارلیمان حکومتی اتحاد کے لیے جاری مذاکرات کے باعث نئے چانسلر کو منتخب نہیں کر پاتی تو جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر چانسلر انگیلا میرکل اور ان کی کابینہ کو اگلی حکومت کے قیام تک کام کرنے کا کہیں گے۔
جرمنی کی نئی پارلیمان 709 اراکین سے تجاوز کر جائے گی۔ یہ جرمنی کی تاریخ کی سب سے بڑی اور چین کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑی پارلیمان ہو گی۔ اس کی ایک وجہ جرمنی کا انتہائی پیچیدہ انتخابی عمل ہے، جو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ پارلیمان کے اراکین کی تعداد پارٹی ووٹوں کی مناسبت سے ہو۔
پارلیمان کے سب سے سینیئر رکن نئی پارلیمان کے اجلاس کی سربراہی کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں پارلیمانی صدر اور ان کے نائب اراکین کو منتخب کیا جاتا ہے۔ نئی پارلیمان کا سب سے اہم کام چانسلر کو منتخب کرنا ہے۔ جرمن چانسلر خفیہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔
رینا گولڈبرگ، ب ج، اا
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔