میرکل مہاجرین دوست پالیسی پر ’یو ٹرن‘ لے چکیں، گابریئل
شمشیر حیدر13 مئی 2016
جرمنی کے وفاقی نائب چانسلر اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سربراہ زیگمار گابریئل کا کہنا ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق اپنی پالیسی بالکل تبدیل کر چکی ہیں۔
اشتہار
زیگمار گابریئل جرمنی کے نائب چانسلر اور وفاقی وزیر اقتصادیات ہونے کے علاوہ برلن میں حکمران اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ گابریئل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی مہاجرین دوست پالیسی مکمل طور پر بدل دی ہے۔
جرمنی کے کثیر الاشاعت ہفت روزہ جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں زیگمار گابریئل نے کہا، ’’گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں جرمن چانسلر نے فیصلہ کیا تھا کہ یونان اور ہنگری میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کے لیے جرمنی کی سرحدیں کھول دی جائیں، اس وقت یہ فیصلہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘
انگیلا میرکل کے اس فیصلے کو اس وقت نہ صرف جرمن عوام کی جانب سے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت سراہا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور صرف 2015ء میں جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے تارکین وطن کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر گئی تھی۔
اس بارے میں زیگمار گابریئل کا کہنا تھا، ’’بعد میں جب آسٹریا، ہنگری، سلووینیہ اور بلقان کی دیگر ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کر دیں تو میرکل نے کہا کہ وہ ایڈومینی میں پھنسے تارکین وطن کو جرمنی نہیں لائیں گی کیوں کہ وہ یونان ہی میں رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ عمل ان کی مہاجرین دوست پالیسی کے بالکل برعکس تھا۔‘‘
مہاجرین اور تارکین وطن کو یورپ کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے میں بھی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
حالیہ دنوں میں ترک صدر کی جانب سے اختیار کیے گئے غیر لچکدار رویے کے باعث یہ خطرہ دکھائی دے رہا ہے کہ یہ معاہدہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ انگیلا میرکل یورپ اور ترکی کے مابین جاری اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بائیس مئی کو ایک بار پھر انقرہ کا دورہ کر رہی ہیں۔
جرمن نائب چانسلر زیگمار گابریئل کا کہنا تھا کہ یورپ کو کسی صورت بھی ترک شہریوں کو بغیر ویزہ یورپ کا سفر کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں دینا چاہیے جب تک انقرہ اس معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کرتا۔
’ڈیئر اشپیگل‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ایس پی ڈی کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی رائے میں ترکی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ یورپ میں جاری مہاجرین کا بحران حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ گابریئل کے بقول، ’’یونانی جزیروں تک پہنچنے کا راستہ بند ہونے کے بعد لوگ بلغاریہ، اٹلی اور دیگر راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘‘