’میرکل مہاجرین کو یورپ لائیں، خمیازہ بھی جرمنی ہی بھگتے‘
شمشیر حیدر Reuters
21 مئی 2017
پولینڈ کی حکمران جماعت کے سربراہ یاروسلاو کاچنسکی نے یورپی یونین میں مہاجرین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یورپ میں مہاجرین کے بحران کا الزام جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر عائد کیا ہے۔
اشتہار
پولینڈ میں برسر اقتدار کنزرویٹیو سیاسی جماعت لاء اینڈ جسٹس پارٹی (پی آئی ایس) کے سربراہ اور سابق ملکی وزیر اعظم یاروسلاو کاچنسکی نے یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کاچنسکی نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو یورپ میں مہاجرین کے بحران کا ذمہ دار بھی قرار دیا ہے۔
دائیں بازو کے سیاست دان کاچنسکی اس سے قبل بھی مہاجرین کے بارے میں متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے مہاجرین پر یورپ میں بیماریاں پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ابھی سے یورپ میں ایسی خطرناک بیماریوں کے پھوٹنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جو ایک طویل عرصے سے یہاں نہیں دیکھی گئی تھیں۔‘‘
پولینڈ کے عوامی نشریاتی ادارے ٹی وی پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے یورپ میں مہاجرین کے بحران کا ذمہ دار چانسلر میرکل کو قرار دیا۔ کاچنسکی کا کہنا تھا، ’’ہم نے تو یورپ کے دروازے مہاجرین کے لیے نہیں کھولے، بلکہ یہ کام میرکل نے کیا ہے۔ اور اسی لیے اس بحران کا خمیازہ بھی چانسلر میرکل اور جرمنی کو ہی بھگتنا ہو گا، نہ کہ پولینڈ کو۔‘‘
یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ سن 2015 میں طے کیا گیا تھا جس کے تحت شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچنے والے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد مہاجرین کو یونین کے رکن ممالک میں تقسیم کیا جانا تھا۔
ہنگری، پولینڈ اور مشرقی یورپ کے چند دیگر ممالک مہاجرین کی تقسیم کا منصوبہ قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
یورپی کمیشن آئندہ مہینے اس معاملے پر ایک اجلاس منعقد کر رہا ہے جس میں مہاجرین اور تارکین وطن کی تقسیم قبول نہ کرنے والے ممالک کے خلاف ممکنہ طور پر قانونی کارروائی یا انہیں سزا دیے جانے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ان ممالک میں پولینڈ اور ہنگری بھی شامل ہیں۔
قانونی کارروائی کی دھمکی کے باوجود پولینڈ نے تاہم جمعرات کے روز مہاجرین کی تقسیم کا منصوبہ قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔