میرکل مہاجرین کے لیے لچک پر مصر، چیک جمہوریہ مخالف
5 جون 2018
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے مہاجرین سے متعلق یورپی پالیسیوں کی نرمی کے خیال کے جواب میں چیک جمہوریہ کا کہنا ہے کہ یونین کی ہر ریاست کو اپنی اپنی قومی سرحد کی نگرانی اور تحفظ کا اختیار حاصل ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ یورپی یونین تارکین وطن سے متعلق اپنی پالیسیوں میں نرمی کا مظاہرہ کرے۔ چیک جمہوریہ کی جانب سے میرکل کے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کی ہر رکن ریاست کو اپنی اپنی قومی سرحد کی حفاظت خود کرنا چاہیے۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘
اس سے قبل پراگ حکومت نے یورپی کمشین کی جانب سے مہاجرین کی تقسیم سے متعلق کوٹہ کے نظام کو مسترد کرتے ہوئے اس منصوبے کے تحت تارکین وطن کو اپنے ہاں جگہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ یورپی کمیشن کے منصوبے کے مطابق اٹلی اور یونان جیسے ممالک، جو مہاجرین کے بحران سے شدید متاثرہ ہیں، وہاں موجود تارکین وطن کو یورپی یونین کی مختلف رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا، تاکہ متاثرہ ممالک کا بوجھ بانٹا جا سکے۔
رواں ماہ اس موضوع پر یورپی یونین کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے۔ میرکل نے اسی تناظر میں ویک اینڈ پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپی کمیشن کو ایک ایسا لچک دار نظام وضع کرنا چاہیے، جس کے تحت ایسے ممالک جو تارکین وطن کو اپنے ہاں نہیں بسانا چاہتے، وہ دیگر ممالک کو مالی معاونت کر کے اپنا حصہ شامل کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یورپی سرحدی ایجنسی فرونٹیکس کو آزادانہ طور پر اپنا کام کرنا چاہیے۔
چیک جمہوریہ کے وزیراعظم آندرے بابیِس نے میرکل کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا، ’’یہ خیال کہ فرونٹیکس سرحدوں کی نگرانی کا تمام کام خود ہی کر لے گی، طویل المدتی بنیادوں پر حقیقت پسندانہ نہیں ہے، اس لیے ہر رکن ریاست کو اپنے اپنے طور پر اپنی سرحد کی حفاظت کرنا چاہیے۔‘‘
بعد میں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بھی بابِیس نے کہا کہ وہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی اجتماعی نگرانی کے مخالف نہیں ہیں، تاہم یورپی یونین کو ہر رکن ریاست کی اہلیت کو استعمال کرنے دینا چاہیے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے کہ مہاجرین کے معاملے پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ سن 2015ء میں قریب ایک ملین تارکین وطن کی یورپی یونین آمد کے بعد یورپ میں اس معاملے پر اختلافات واضح ہیں، جہاں یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو جرمنی نے قبول کیا، تاہم دوسری جانب چیک جمہوریہ، ہنگری، سلوواکیہ اور پولینڈ ایسے ممالک ہیں، جو تارکین وطن کو اپنے ہاں جگہ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔