جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تین افریقی ممالک کا دورہ شروع کر دیا ہے۔ اس دوران وہ باہمی تعلقات میں بہتری کے علاوہ مہاجرت کی وجوہات کے سدباب کے لیے مزید سرمایا کاری پر بھی زور دیں گی۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل بدھ کی شام سینیگال پہنچیں، جہاں انہوں نے اس مغربی افریقی ملک کے صدر ماکی سال سے ملاقات کی۔ جرمن چانسلر کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے بتایا ہے کہ اس ملاقات میں میرکل نے کہا کہ ’ہمیں انسانوں کے اسمگلروں کے لیے ہرگز مدد گار نہیں بننا چاہیے۔ ہمیں غیرقانونیت کے خلاف لڑنا ہو گا اور ساتھ ہی یہاں (افریقہ میں) کام کرنے کے مواقع بھی پیدا کرنا ہوں گے‘۔
افریقہ میں تنازعات اور غربت کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مہاجرت پر مجبور ہے، جن میں سے زیادہ تر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بہتر زندگی کی خاطر یورپ پہنچ جائیں۔ اس تناظر میں یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ اس مہاجرت کی وجوہات کا سدباب کیا جائے تاکہ لوگ ہجرت نہ کریں۔ زائبرٹ کے مطابق چانسلر میرکل کے دورہ سینیگال کے پہلے دن مہاجرت کا ایجنڈا ہی توجہ کا مرکز رہا۔
سینیگال کے صدر نے میرکل سے اتفاق کیا کہ لوگوں کا بہتر زندگی کی خاطر بحیرہ روم کا پرخطر سفر اختیار کرنا ’افریقہ کی عظمت کے برخلاف‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ سینیگال میں نہ تو جنگی حالات ہیں اور نہ ہی کسی کو مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس لیے یورپی ممالک اس ملک کے شہریوں کی پناہ کی درخواست قبول نہیں کریں گے
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے صدر سال کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ اعلان بھی کیا کہ برلن حکومت سینیگال کے تین سو دیہات کو بجلی فراہم کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ اس افریقی دورے کے دوران میرکل کے ہمراہ مختلف کمپنیوں نے درجن بھر چیف ایگزیکٹیو افسران کا ایک وفد بھی شامل ہے۔ جرمن چانسلر اس دورے کے دوران گھانا اور نائجیریا بھی جائیں گی۔
گھانا اور سینیگال افریقہ میں ترقی کی راہوں پر گامزن دو اہم ممالک قرار دیے جاتے ہیں جبکہ نائجیریا کو افریقہ کا ’پاور ہاؤس‘ کہا جاتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں مزید ترقیاتی منصوبہ جات کی بدولت مقامی لوگوں کی زندگی بہتر ہو گی اور مہاجرت کے رحجانات کم ہو جائیں گے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے حال ہی میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔ ایتھوپیا افریقہ میں اقتصادی طور پر مضبوط دس ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ میرکل نے ایتھوپیا کے وزیر اعظم کو برلن کا دورہ کرنے کی بھی دعوت بھی دی ہے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے
اِن خاندانوں کے شکنجے میں پورا افریقہ
براعظم افریقہ میں سیاست اکثر خاندان کے اندر ہی رہتی ہے: باپ کے بعد بیٹا عہدہٴ صدارت کا وارث بنتا ہے، بیٹی ریاستی اداروں کی سربراہی کرتی ہے اور اہلیہ وزیر کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔ دیکھیے خاندانی سیاست کی چند ایک مثالیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
میرا بیٹا، میرا باڈی گارڈ
یوویری موسوینی ایک طویل عرصے سے یوگنڈا کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اُن کے سب سے بڑے بیٹے موھوزی کاینیروجابا کی ہے، جو ملکی فوج میں ایک بڑے افسر ہیں اور اُس خصوصی یونٹ کے کمانڈر بھی، جو صدر کی حفاظت پر مامور ہے۔ موسوینی کی اہلیہ جینٹ تعلیم و تربیت اور کھیلوں کی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہیں۔ اُن کے ہم زُلف سَیم کُٹیسا وزیر خارجہ ہیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
صدر کی بیٹی، اربوں کی مالک
انگولا کے صدر کی سب سے بڑی صاحبزادی ازابیل دوس سانتوس افریقہ کی دولت مند ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی فرنیچر ساز کمپنی اور سرکاری تیل کمپنی سون انگول کی بھی مالک ہیں اور اُن کی سُپر مارکیٹ کی شاخیں ملک بھر میں ہیں۔ اُن کا بھائی انگولا کے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے سرمایے کے حامل ریاستی فنڈ FSDEA کا سربراہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باپ صدر، بیٹا نائب صدر
یہ ہیں، تیودور انگوئما اوبیانگ مانگُو، اُستوائی گنی کے دوسرے نائب صدر۔ اُن کے والد تیودور اوبیانگ مباسوگُو 1979ء سے ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ صدر کا سوتیلا بیٹا گیبریئل ایمبیگا اوبیانگ تیل کے امور کا وزیر ہے۔ صدر کا سالا اینسُو اوکومو تیل کے کاروبار سے متعلق سرکاری ادارے GEPetrol کا سربراہ ہے۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/F. Franklin II
انتہائی با اثر جڑواں بہن
یہ ہیں، کانگو کے سابق صدر لاؤراں کابیلا کی صاحبزادی جینٹ دیسیرے کابیلا کیونگُو، جن کے بھائی جوزیف کابیلا آج کل ملک کے صدر ہیں۔ جینٹ ملکی پارلیمان کی بھی رکن ہیں اور ایک میڈیا کمپنی کی بھی مالک ہیں۔ ’پانامہ لِیکس‘ سے پتہ چلا کہ وہ ایک ایسی آف شور کمپنی کی سربراہ بھی ہیں، جو کانگو کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی کے شیئرز کی مالک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
کل سیکرٹری، آج خاتون اوّل
گریس مُوگابے زمبابوے میں ایک طویل عرصے سے صدر چلے آ رہے رابرٹ مُوگابے کی دوسری اہلیہ ہیں۔ ان دونوں کا معاشقہ اُس وقت شروع ہوا تھا، جب گریس ابھی صدر کی سیکرٹری تھیں۔ اب گریس مُوگابے حکومتی پار ٹی کی ’خواتین کی لیگ‘ کی چیئر پرسن ہیں اور انتہائی با اثر ہیں۔ گو وہ اس کی تردید کرتی ہیں تاہم اُنہیں اپنے 92 سالہ شوہر کی جانشین تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
سابقہ اہلیہ کے بڑے سیاسی عزائم
نکوسازانا دلامینی زُوما پہلی خاتون ہیں، جنہیں افریقی یونین کا سربراہ چُنا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ جنوبی افریقہ کے اُس دور کے صدر تھابو ایم بیکی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھیں اور پھر اپنے سابق شوہر جیکب زُوما کی حکومت میں وزیر داخلہ۔ وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی نکوسازانا کی اپنے شوہر جیکب زُوما سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Prinsloo
ریاست بہ طور فیملی بزنس
ری پبلک کانگو کے صدر ڈینس ساسُو اینگوئیسو کے خاندان کے ارکان کئی بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہیں اور متعدد اہم کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اُن کی بیٹی کلاؤڈیا (تصویر میں) اپنے والد کے مواصلاتی شعبے کی نگران ہیں، اُن کے بھائی ماؤریس متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ صدر کے بیٹے ڈینس کرسٹل کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ اُسے جانشینی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gervais
نصف صدی سے حکمران خاندان
گیبون میں عمر بونگو اوندیمبا نے اکتالیس برس تک حکومت کی، یہاں تک کہ 2009ء میں اُن کا بطور صدر ہی انتقال ہو گیا۔ بعد ازاں متنازعہ انتخابات میں اُن کے بیٹے علی بونگو سترہ دیگر امیدواروں کو واضح طور پر شکست دے کر کامیاب ٹھہرے۔ 2016ء میں ایک بار پھر انتخابات جیت گئے۔ یوں یہ خاندان گیبون پر گزشتہ نصف صدی سے برسرِاقتدار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Longari
جیسا باپ، ویسا بیٹا
غناسینغبی ایادیما ٹوگو میں طویل عرصے تک صدر کے عہدے پر براجمان رہے۔ اُن کے تقریباً پچاس بچوں میں سے صرف ایک یعنی فور غناسینغبی (تصویر میں) نے سیاست میں قدم رکھا۔ آج کل وہی ملک کے حکمران ہیں۔ کینیا اور بوتسوانہ میں بھی آج کل جو شخصیات حکمرانی کر رہی ہیں، اُن سے پہلے اُن کے باپ ملک کے حکمران تھے۔