جرمن چانسلرنے اپنے دورہ مصر کے دوران قاہرہ میں صدر السیسی کے ساتھ اپنی ملاقات میں یورپ کی طرف مہاجرین کا بہاؤ روکنے کی خاطر مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وہ دو شمالی افریقی ممالک کے اس دورے کے دوران تیونس بھی جائیں گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل نے دو مارچ بروز جمعرات قاہرہ میں مصری صدر عبداالفتاح السیسی سے ملاقات میں مہاجرین کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ میڈیا نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اس امر پر بات چیت کی کہ شمالی افریقی ممالک سے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے افراد کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ کے مطابق برلن حکومت مصر کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو خطرناک سمندری راستوں سے گزر کر یورپ پہنچنے سے روکا جا سکے۔ جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس مقصد کی خاطر وہ مصری ساحلی محافظوں کے ساتھ قریبی شراکت داری کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ بحیرہ روم میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی پر بھی غور کر سکتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسی سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین کی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی خاطر امدادی کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاہم تنازعات اور شورش زدہ خطوں سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام تر خطرات کے باوجود کسی طرح یورپ پہنچ جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ زیادہ تر مہاجرین لیبیا کی ساحلی حدود سے کمزور اور خستہ حال کشتیوں میں بیٹھ کر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
یہ امر بھی اہم ہے کہ رواں برس ستمبر میں جرمنی میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ میرکل کی مہاجر دوست پالیسی اور پھر جرمنی اور یورپ میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے باعث میرکل کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ ان کے اپنے حکومتی اتحاد میں شامل کچھ سینئر سیاستدان بھی میرکل کو اسی باعث تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم میرکل مصر ہیں کہ جرمنی مہاجرین کو خوش آمدید کہتا رہے گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے تازہ ترین ہفتہ وار پوڈکاسٹ پیغام میں واضح کیا تھا کہ لیبیا میں شورش کے خاتمے کے بغیر وہاں فعال انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف مناسب کارروائی مشکل ہے۔ اسی شمالی افریقی ملک سے مہاجرین اور تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کشتیوں میں سوار ہو کر اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔
انگیلا میرکل کے ہمراہ جرمن تاجروں کا ایک بڑا وفد بھی مصر پہنچا ہے، جو دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کرے گا۔ میرکل اس دو روزہ دورے کے دوران جمعے کے دن تیونس میں صدر بیجی قائد السبسی سے بھی ملاقات کریں گی۔