میرکل کی ایردوآن سے گفتگو، بحیرہ روم پر پیش رفت کا خیر مقدم
9 فروری 2021
مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کی تلاش کے حوالے سے ترکی نے یورپی یونین کو ناراض کر دیا تھا تاہم جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ اب اس پر مذاکرات کا وقت ہے۔
اشتہار
جرمن حکومت کی جانب سے پیر آٹھ فروری کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کے صدر طیب رجب ایردوآن سے بات چیت کے دوران ''مشرقی بحیرہ روم کے حوالے سے حالیہ مثبت پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔''
دونوں رہنماؤں کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بات چیت ہوئی جس میں میرکل نے کہا کہ اب، ''وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے بات چیت کے ذریعے پیش رفت کی جائے۔''
ترکی نے قبرص اور یونان کے ساحلوں سے متصل ان متنازعہ پانیوں میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش شروع کر دی تھی جس پر قبرص اور یونان دونوں ہی اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں۔ ترکی بھی ان پانیوں پر اپنا دعوی کرتا ہے اور اس سے یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے تعلقات مزید خراب ہوگئے تھے۔
گیس کے ذخائر کی تلاش
مشرقی بحیرہ روم میں قبرص کے ساحل کے قریب سمندری پانیوں کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان تنازعہ کافی پرانا ہے۔ تاہم ترکی نے گزشتہ برس اگست کے مہینے میں اس علاقے میں توانائی تلاش کرنے کے مقصد سے اپنا ایک جہاز روانہ کر دیا تھا۔ یورپی یونین نے اسے اس قدم سے باز رہنے کے لیے متنبہ کیا تھا تاہم ترکی نے اس کی پرواہ نہیں کی تھی۔
گزشتہ برس دسمبر میں یورپی یونین کے ارکان نے اس حوالے سے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ یورپی یونین کا الزام ہے کہ ترکی نے یکطرفہ طور پر اشتعال انگیز کارروائی کی اور اس کے ذریعے یونین کے خلاف بیان بازی میں بھی اضافہ ہوا۔
یورپی یونین نے ترکی پر مزید معاشی پابندیوں کی بات یہ کہہ کر چھوڑ دی تھی کہ سخت پابندیوں پر حتمی فیصلہ یونین کی آئندہ میٹنگ میں کیا جائے گا جو 25 اور 26 مارچ کے دوران ہونے والی ہے۔
نئی شروعات
یورپی یونین نے جب پابندیوں کی دھمکی دی تھی اس وقت تو ایردوآن نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ تاہم اب اس حوالے سے ان کے الفاظ میں پہلے جیسی سختی نہیں ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ان کے اس دعوے پر مثبت انداز میں رد عمل ظاہر کیا تھا کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے، ''ایک نئی شروعات کریں گے۔''
پورے یورپ میں سب سے زیادہ ترک نژاد افراد جرمنی میں بستے ہیں اور اسی لیے مختلف متنازعہ مسائل کے حوالے سے جرمنی یورپی یونین اور ترکی کے درمیان کئی بار ثالثی کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس میں سب سے اہم پناہ گزینوں سے متعلق سن 2016 کا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت ترکی غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ کی طرف جانے سے باز رکھتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔