میرکل کی جماعت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کی تائید کر دی
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
10 اگست 2017
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے ارکان نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو جرمنی سے واپس افغانستان ملک بدر کرنے کے منصوبے کی تائید کر دی ہے۔
اشتہار
جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے جرمنی میں مقیم ایسے افغان تارکین وطن کو، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں، ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجنے کے منصوبوں کی حمایت کر دی ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان میں سکیورٹی صورت حال کے باعث جرمنی سے افغان تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر جرمن سیاسی جماعتوں کی رائے کافی منقسم دکھائی دے رہی تھی۔ جرمن پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت کی جانب سے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا عمل پھر سے شروع کر دیے جانے کی توقع ہے۔
افغان مہاجرین کی جرمنی بدری
سیاسی پناہ کی درخواستیں رد ہو جانے کے بعد افغان مہاجرین کو لیے پہلا طیارہ فرینکفرٹ سے کابل پہنچ گیا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
کابل میں آمد
38 مہاجرین کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جرمن شہر فرینکفرٹ سے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچایا گیا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
وطن تو پھر وطن ہے
کابل پہنچنے پر ایک مہاجر افغانستان کی زمین کو چوم رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
واپسی پر ہاتھ تقریباﹰ خالی
افغانستان پہنچنے والے ان مہاجرین کے ہم راہ ایک چھوٹے بستے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان مہاجرین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ انہیں کئی ضروری اشیاء بھی ساتھ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
جرمنی میں مظاہرے
جرمنی میں موجود سینکڑوں افغان مہاجرین اس ڈپورٹیشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان محفوظ ملک نہیں اس لیے مہاجرین کی جرمنی بدری روکی جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Prautsch
جرمنی اور افغانستان کے درمیان معاہدے پر اعتراضات
مہاجرین کی ملک بدری جرمنی اور افغانستان کے درمیان کچھ ماہ قبل طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ہو رہی ہے۔ جرمنی میں اس معاہدے پر کئی طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Roland
ملک بدری کے لیے خصوصی طیارہ
فریکنفرٹ سے ان مہاجرین کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کابل پہنچایا گیا۔ جرمن حکام کے مطابق کابل حکومت ان مہاجرین کو ان کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
افغانستان محفوظ نہیں
اس ملک بدری کے ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک محفوظ ملک نہیں ہے اور واپس پہنچنے والے مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Prautsch
7 تصاویر1 | 7
جرمنی کی وفاقی وزارت خارجہ کے ترجمان مارٹن شیفر کے مطابق افغانستان میں جاری کئی مسلح تنازعات سے عام شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق نہیں ہیں اور اسی لیے مخصوص حالات کے تحت افغان تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجے جانے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔
جرمن حکومت سن 2017 کے دوران تارکین وطن کی ملک بدریوں میں ریکارڈ اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مارٹن شیفر نے تارکین وطن کے آبائی وطنوں، جنس اور ان کی ذات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’افغانستان میں مقیم یا جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے افغان شہریوں کو انفرادی سطح پر درپیش جانی خطرات کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔‘‘
رواں برس کے آغاز میں جرمنی سے 261 افغان باشندوں کو ملک بدر کر کے واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا تھا۔ تاہم افغان دارالحکومت کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب کیے گئے ایک خونی دہشت گردانہ حملے کے بعد افغان شہریوں کی وطن واپسی کا عمل روک دیا گیا تھا اور وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مہاجرین کی واپسی کا عمل افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کا ازسر نو جائزہ لیے جانے تک شروع نہیں کیا جائے گا۔
رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک آٹھ سو سے زائد افغان شہری رضاکارانہ طور پر جرمنی سے واپس لوٹ چکے ہیں۔
آج دس اگست بروز جمعرات جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان یوہانس ڈمروتھ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی جرائم میں ملوث افغان شہریوں کی ملک بدری جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے افغان شہریوں کو بھی واپس ان کے وطن بھیج دیا جائے گا جو اپنی حقیقی شناخت سے متعلق جرمن حکام سے تعاون نہیں کر رہے۔
سی ڈی یو کے ارکان کی جانب سے افغان شہریوں کی ملک بدری کی تائید کے بعد اس جماعت کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے بھی جماعت کے اس فیصلے کو مثبت قرار دیا ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘