میرکل کی جماعت کو صوبائی الیکشن میں دھچکا، وجوہات کیا ہیں؟
29 اکتوبر 2018
جرمن صوبے ہیسے میں گزشتہ روز ہونے والے انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کو ماضی کے مقابلے میں کہیں کم ووٹ ملے ہیں۔ جرمنی کی دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
اشتہار
اتوار کے روز ہونے والے ان انتخابات میں گو کہ چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو اب بھی 27 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے آگے ہے، تاہم گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ووٹوں کا تناسب کم ہے۔ ان انتخابات میں گرین پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انیس اعشاریہ نو اور انیس اعشاریہ آٹھ ووٹوں کے ساتھ دوسرےاور تیسرے نمبر پر ہیں۔
دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ 13.2 فیصد ووٹ حاصل کر کے صوبائی پارلیمان میں داخل ہو گئی ہے۔
سن 1966 کے بعد اس صوبے میں سی ڈی یو کے الیکشن میں سب سے زیادہ برے نتائج نے ایک بار پھر جرمن چانسلر میرکل کی قیادت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ میرکل کی اتحادی حکومت کو داخلی سطح پر مسائل اور صوبائی انتخابات میں ناقص کارکردگی کا سامنا رہا ہے۔ میرکل کو گزشتہ برس جرمنی میں پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے مختلف طرز کی مشکلات دیکھنا پڑی ہیں۔
جرمن صوبے ہیسے میں کل ہونے والے الیکشن کے نتائج کے بعد اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی ملک کی تمام سولہ ریاستوں کی پارلیمانوں میں داخل ہو چکی ہے جو محض پانچ سال قبل قائم ہونے والی اس جماعت کے لیے بلا شبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
ایس پی ڈی کی رہنما آندریا ناہیلز کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی موجودہ حکمت عملی ’قابل قبول‘ نہیں اور یہ کہ اس کے نتائج سی ڈی یو اور ایس پی ڈی دونوں ہی کو بھگتنے ہوں گے۔
ناہیلز کے مطابق،’’ ایس پی ڈی کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ ایس پی ڈی کی رہنما کے بقول اُن کی جماعت کو اس موقف کو بھی مزید واضح کرنا ہو گا جس کے لیے وہ کھڑی ہوئی ہے۔
ہیسے میں سی ڈی یو کی ناقص کارکردگی کے بعد ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ ایک اور انتخابی دھچکے کے بعد غالباﹰ میرکل پارٹی کی لیڈر شپ سے استعفیٰ دے دیں گی لیکن وفاقی وزیر خزانہ اولاف شُلز نے ایسی افواہوں کو اتوار کے روز مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ روز ہیمبرگ میں دیے ایک بیان میں شُلز نے کہا کہ وہ میرکل کے ترجمان نہیں لیکن وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ میرکل کو پورے پانچ سال کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
ماہرین کی رائے میں سی ڈی یو کا ووٹ بینک اے ایف ڈی کی جانب منتقل ہونے کی وجہ سن 2015 میں ایک ملین سے زائد پناہ گزینوں کے لیے میرکل کی اوپن ڈور پالیسی بنی ہے۔ اے ایف ڈی کے ایک سرکردہ رہنما جارج مؤیتھین نے اتوار کے روز صوبائی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک بیان میں کہا،’’ ہماری جماعت نے اپنے تمام انتخابی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔‘‘
اے ایف ڈی کے علاوہ سی ڈی یو کے ووٹروں کی ناراضی کا فائدہ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی گرین پارٹی کو بھی حاصل ہوا ہے۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔