سی ڈی یو اور سی ایس یو نے ڈرامائی حد تک ووٹوں کا نقصان اُٹھایا ہے۔ ایف ڈی پی ایک بار پھر پارلیمان تک پہنچ گئی اور اے ایف ڈی تیسری طاقتور سیاسی جماعت ثابت ہوئی ہے۔
اشتہار
چوبیس ستمبر کو ہونے والے جرمن پارلیمانی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کافی اعتبار سے اچنبے کا سبب بنے۔ خاص طور پر ان سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کے لیے جو یہ اندازہ لگائے بیٹھے تھے کہ انگیلا میرکل کی پارٹی کو لگ بھگ 40 فیصد ووٹ ملیں گے۔ ہوا اس کے بالکل برعکس۔
میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیمو کریٹک یونین کو 1949 ء کے بعد سے اب تک کے بد ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑا یعنی سی ڈی یو اور اس کی سسٹر یا ہم خیال پارٹی سی ایس یو کو تینتیس عشاریہ سے کچھ زائد فیصد ووٹ ملے۔ غیر سرکاری نتائج کے سامنے آنے کے بعد انگیلا میرکل نے اپنے بیان میں کہا،’’ہمارے خلاف کوئی بھی پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی‘‘۔ میرکل کا یہ بیان کافی حد تک بیباک تھا۔
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو ووٹوں کا جو نقصان پہنچا اُس کا فائدہ فری ڈیموکریٹک پارٹی کو ہوا۔ یعنی سی ڈی یو کے کافی ووٹ ایف ڈی پی نے لیے اور میرکل کی سی ڈی یو کے بہت سے ووٹرز نے مہاجرین مخالف پارٹی اے ایف ڈی کی طرف ہجرت اختیار کر لی۔
انتخابات کے بعد چانسلر میرکل کا کیا کہنا ہے؟
01:05
ساتھ ہی اس بار کے الیکشن میں بھی قدامت پسند پارٹی سی ڈی یو اور سی ایس یو نئے نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف مائل نہ کر سکیں۔ کرسچین سوشل یونین سی ایس یو نے اپنے گڑھ یعنی جنوبی جرمن صوبے باویریا میں 2013 ء کے مقابلے میں قریب دس فیصد ووٹ کا خسارہ اُٹھایا جو دراصل سی ڈی یو کی ووٹ کی شرح کے گرنے میں فیصلہ کُن ثابت ہوا۔
اس بار کے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو ملنے والے ووٹوں میں ڈرامائی کمی نے میرکل کی پارٹی کے لیے آئندہ حکومت سازی میں سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے امکانات کو خارج کر دیا۔ ابتدائی نتائج اور جائزوں کے سامنے آتے ہی ایس پی ڈی کے چوٹی کے لیڈروں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ ایک وسیع مخلوط حکومت کو اب خیر باد کہہ رہے ہیں۔
بڑی کولیشن کی مایوسی
مجموعی طور پر کرسچین ڈیمو کریٹک یونین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے 14 فیصد ووٹوں کا نقصان اُٹھایا ہے۔ گرچہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار ووٹرز کا ٹرن آؤٹ زیادہ تھا۔ اس بار ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح 75 فیصد رہی۔ یہ انتخابی حلقوں اور ووٹرز کی طرف سے ان دونوں مرکزی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک انتباہ ہے۔
اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جرمن سیاسی نظام میں ان دونوں مرکزی پارٹیوں کے بنیادی کردار کو دھچکہ لگا ہے اب یہ ملک اور قوم کے فیصلوں کو اپنے طریقے سے کرنے سے قاصر رہیں گی۔ اس خیال کو مزید تقویت آلٹر نیٹیو فار ڈوئچ لنڈ (اے ایف ڈی) کی 13 فیصد سے زائد ووٹ کا حصول اور اس کے پہلی بار جرمن پارلیمان میں آنے سے ملی ہے۔
1987ء میں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی نے مجموعی طور پر 81 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2017 ء میں انہیں محض 54 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس بار کے الیکشن کے جائزوں میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ میرکل کے خلاف کچھ نہ کر سکی۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کا گرینڈ کولیشن جرمن معیشت میں ترقی اور بے روزگاری کی شرح میں کمی کے باوجود دیگر سیاسی شعبوں میں عدم اطمینان کا باعث نظر آیا۔ اس کے علاوہ مہاجرین کا بحران اور پینشن کی پالیسی جیسے عوامل بھی سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کی مخلوط حکومت کی طرف سے عوام میں عدم اطمینانی کے اضافے کا سبب بنے ہیں۔
اے ایف ڈی ایک بڑا چیلنج
تقریباٍ جرمنی کے تمام صوبائی پارلیمانی ایوانوں تک پہنچنے کے بعد اب اسلام اور مہاجرین مخالف پارٹی اے ایف ڈی وفاقی پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ مشرقی جرمنی میں تو دائیں بازو کی عوامیت پسند یہ جماعت 22 فیصد تک ووٹ حاصل کر کے دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر اُبھری ہے۔ مشرقی جرمن مرد شہریوں میں تو اے ایف ڈی سب سے زیادہ مقبول اور ان کی پسندیدہ پارٹی بن چُکی ہے جبکہ وفاقی پارلیمان میں یہ تیسری بڑی جماعت بن چُکی ہے۔
اے ایف ڈی کے حامی اور اسے ووٹ ڈالنے والے شہریوں کے 60 فیصد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس جماعت کو دیگر سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے اظہار کے طور پر بھی ووٹ دیے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ دل سے قائل ہو کر اے ایف ڈی کی حمایت کرنے والے اور اسے ووٹ دینے والے حامی دراصل اقلیت میں ہیں۔ اے ایف ڈی کے چوٹی کے امیدوار آلیکزانڈر گاؤلنڈ نے کہا ہے کہ وہ پارلمیان میں میرکل کی نئی حکومت کو ’’شکار‘‘ بنائیں گے۔