میرکل کی مخلوط حکومت سازی کے مذاکراتی عمل کو دھچکا
عابد حسین
16 اکتوبر 2017
لوئر سیکسنی کے ریاستی الیکشن میں میرکل کی شکست اور اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ لوئر سیکسنی آبادی کے اعتبار سے جرمنی کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ اس الیکشن میں کامیابی میرکل کے لیے خاصی اہم ہوتی۔
اشتہار
جرمنی کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ زیریں سیکسنی کے ریاستی الیکشن میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کو حاصل ہونے والی شکست کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں۔ یہ شکست انگیلا میرکل کی نئی مخلوط حکومت کے مذاکراتی عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق چوبیس ستمبر کے انتخابات میں میرکل کی سیاسی جماعت کو بظاہر برتری حاصل ہوئی تھی لیکن میرکل کو اپنی چوتھی مدتِ میں کئی پالیسیوں میں کمزوریوں کا سامنا رہے گا۔ کسی بھی پارٹی کی ناراضی اُن کی حکومت کو اقلیت میں بدل دے سکتی ہے۔
لوئر سیکسنی میں قبل از وقت کرائے جانے والے انتخابات میں سی ڈی یو 33.6 فیصد ووٹ حاصل کر پائی ہے، جوچوبیس ستمبر کے پارلیمانی الیکشن کے بعد میرکل کی مقبولیت میں کمی کا واضح مظہر ہے۔ اس ریاستی الیکشن میں سن 1959 کے بعد سی ڈی یو کی یہ سب سے بُری کارکردگی قرار دی گئی ہے۔
لوئر سیکسنی کے انتخابات چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے تین ہفتوں کے بعد ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انگیلا میرکل ایک نیا حکومتی اتحاد گرینز پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ بنانا چاہتی ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ نئی حکومتی اتحاد کے مذاکرات پیچیدہ اور طویل ہو سکتے ہیں کیونکہ لوئر سیکسنی کے انتخابی نتیجے نے میرکل کی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ حکومت سازی کا مذاکراتی عمل سن 2018 تک جا سکتا ہے۔
میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شُلس کا سیاسی کیریئر
سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ تاہم وہ میرکل سے شکست کھا گئے۔ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والے مارٹن شلس ہیں کون؟
تصویر: Reuters/W. Rattay
یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Dpa/dpa
ایک متحرک شخصیت
مارٹن شلس کا تعلق ویورزیلین نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس اب بھی اسی چھوٹے سے شہر میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ برسوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
مارٹن شلس اور ملالہ یوسفزئی
پاکستان میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی نے سن دو ہزار تیرہ میں انسانی حقوق کے لیے یورپی پارلیمنٹ کا اعلیٰ ایوارڈ سخاروف پرائز جیتا تھا۔ تب شلس یورپی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ ملالہ کے حوالے کیا تھا۔
تصویر: Reuters
فٹ بالر بننے کا خواب
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس تک بے روز گار بھی رہے۔ شلس اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک لاابالی اور بے پرواہ لڑکا تھا اور اچھا طالب علم بھی نہیں تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سایست میں قدم
شلس 1974 سے ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک ہو چکے تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Sevenich
چانسلرشپ کے لیے امیدوار
جنوری 2017ء میں شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلرشپ کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول شہریوں کو اگر یہ احساس ہو کہ وہ تو سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے، تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/HMB Media/H. Becker
امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید
سن 2016 میں شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو انہوں نے یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان شلس کا کہنا ہے، ’’روس جو کر رہا ہے، وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اپنے انہی خیالات کا برملا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جیت کے امکانات کم ہیں
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ شلس چانسلر میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننے کے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
’میں ہی چانسلر بنوں گا‘
عوامی جائزوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے باوجود شلس بہت پرامید ہیں اور وہ ان ووٹروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر سکے کہ 24 ستمبر کو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ’چانسلر میں ہی بنوں گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/M. Hitij
’جمہوریت ہی واحد راستہ‘
مارٹن شلس کا کہنا ہے کہ ’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے‘۔ ناقدین کے مطابق شلس اپنی پارٹی کی مقبولیت میں بہتری کا باعث بنے ہیں لیکن میرکل کو شکست دینا ان کے لیے ایک مشکل کام ہو گا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Kappeler
اپنی اہلیہ کے ساتھ
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ اِنگے شلس کی گزشتہ برس جرمن شہر آخن میں لی گئی ایک تصویر۔ شلس اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو اپنی کامیابی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارٹن اور اِنگے شلس دو بچوں کے والدین ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
12 تصاویر1 | 12
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات میں مرکزی جرمن اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو تقریباً 37 فیصد ووٹ ملے ہیں جب کہ سی ڈی یو 33.6 فیصد ووٹ حاصل کر پائی ہے۔ لوئر سیکسنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت میں چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کامیابی نے پارٹی کے لیڈر مارٹن شلس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔
پندرہ اکتوبر کو ہونے والے الیکشن میں انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو بھی لوئر سیکسنی کی ریاستی اسمبلی میں نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ملکی پارلیمان کے علاوہ یہ چودہویں ریاستی اسمبلی ہے جس میں آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ کو جگہ ملی ہے۔