برطانوی عوام کے یورپی یونین سے نکل جانے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد جرمنی میں وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مہاجرین دوست پالیسی کی وجہ سے ان کی مقبولیت خاصی کم ہو گئی تھی۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ دنوں کے دوران جرمنی میں کیے گئے رائے عامہ کے دو جائزوں کے نتائج کے مطابق انگیلا میرکل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی کے دو کثیر الاشاعت جریدوں کی جانب سے آج نو جولائی بروز ہفتہ جاری کیے جانے والے ایک عوامی جائزے کے نتائج میں لکھا گیا ہے کہ میرکل کی مقبولیت دو درجہ اضافے کے بعد 48 فیصد ہو گئی ہے۔
میرکل کی عوامی مقبولیت میں کمی کا وہ سلسلہ، جو گزشتہ برس ان کی مہاجر دوست پالیسی اور گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن کی جرمنی آمد کے بعد سے جاری تھا، آخر کار ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
عوامی جائزہ کرنے والے تحقیقی ادارے ’فورسا مارکیٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر مانفریڈ گُلنِر نے میرکل کی مقبولیت کی اہم وجہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ’’دراصل کرسچن سوشل یونین کے حامیوں کی 75 فیصد تعداد اب میرکل کی حمایت کر رہی ہے۔‘‘
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) میرکل کی اتحادی جماعتوں میں سے ایک ہے اور یہ جماعت صوبہ باویریا میں برسراقتدار بھی ہے۔ انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں پر سب سے زیادہ تنقید اسی جماعت کی جانب سے کی گئی تھی۔
سی ایس یو نے جرمنی میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی حد مقرر کرنے کا مطالبہ بھی کر رکھا تھا تاہم گزشتہ روز پارٹی کے نائب صدر یہ کہتے ہوئے اس مطالبے سے دستبردار ہو گئے تھے کہ مہاجرین کی آمد میں کمی کے باعث اب حد مقرر کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔#
جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی نے بھی جمعرات کے روز اپنے عوامی جائزے کے نتائج جاری کیے تھے۔ اس سروے کے مطابق بھی ستمبر 2015ء کے بعد پہلی بار میرکل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
اے آر ڈی کی جانب سے کیے گئے ماہانہ سروے میں پندرہ سو لوگوں سے ان کی رائے پوچھی گئی جس میں 59 فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ میرکل کی حالیہ کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ یوں ان کی مقبولیت میں قریب ایک برس بعد نو درجے تک کا اضافہ دیکھا گیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو اور حلیف جماعت سی ایس یو کی مقبولیت میں بھی دو درجے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی میں مہاجرین مخالف عوامیت پسند جماعت ’آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ‘ یا ’جرمنی کے لیے متبادل‘ نامی سیاسی جماعت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اے آر ڈی کے جائزے کے مطابق مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت کی مقبولیت تین فیصد کم ہو کر اب بارہ فیصد رہ گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے ایف ڈی کی عوامی مقبولیت کم ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کی آمد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت کی قیادت میں مختلف معاملات پر آپس میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔